چراغ سحری کا

جمعرات 6 مئی 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 محفل خوب جمی ہوئی تھی، اور سردار تنویر الیاس نپی تلی گفتگو سے مہنگائی کے اسباب پر اظہار خیال کر رہے تھے، ان سے غائبانہ تعارف تو خوب تھا مگر بالمشافہ ملاقات نہیں تھی،معیشت کے بنیادی اصولوں سے ان کی گہری واقفیت اور اسلوب بیان نے ان کا گرویدہ بنا دیا، آزاد کشمیر کے عوام کے بنیادی انسانی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، برسوں قبل اسلام آباد میں ایک بڑی سرمایہ کاری لائے اور شہر کے عین وسط میں جدید تجارتی مرکز تعمیر کرکے اسلام آباد کو ممتاز شہر بنادیا، اب ایک قدم اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اللہ کے کرم اور اس کے فضل سے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا عزم باندھ چکے ہیں، یہ روائتی امید نہیں ہیں بلکہ اپنے بہترین حسن اخلاق کے باعث عوام و خواص میں یکساں مقبول ہیں، عوامی خدمت کے لیے منفرد اسلوب اپنایا ہوا ہے اور وسیع ذخیرہ علم کے باعث ان کی خوبیاں دوسروں سے انہیں ممتاز بناتی ہیںآ دابِ زندگی کے ہر اخلاقی پہلو سے واقف ہیں وہ عوام کے لیے کوئی خواب لے کر نہیں بلکہ انہیں عملی طور پر کامیاب اور مطمئن زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لیے سیاست کے میدان میں اترے ہیں عام فہم انداز گفتگو اور محفل میں شریک ہر شخص کے لیے ہمدردی اور فکر کے در کھولنے کی ایسی عملی کوشش انہیں ایک الگ پہچان دے رہی ہے، عوامی خدمت کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم اور مضبوط موقف رکھتے ہیں، کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے، جو چاہتے ہیں اور عوام کی جس طرح سوچتے ہیں اپنی رائے بغیر بے دھڑک اس کا اظہار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے مداحین کی تعداد حلقے میں مسلسل بڑھ رہی ہے، ان کے ناقدین بھی ہیں مگر عوامی خدمت کے لیے ”ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا“ کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، اور عوام کے ایک بڑے طبقے میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آزاس کشمیر کے نوجوان تعلیم یافتہ ہوں، روزگار کے قابل بنیں، اور دنیا بھر میں اپنے علم و ہنر کے باعث پہنچانے جائیں، امید کی جارہی ہے کہ وہ ترقی کی راہ میں ہر رکاوٹ کی بہت اچھی طرح درگت بنائیں گے، سیاست میں ان کی آمد رکے ہوئے پانی اور جمود ہوئی زندگی میں ارتعاش کی مانند ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں ترقی ہورہی ہے، خوشحالی آرہی ہے باالکل اسی طرح آزاد جموں و کشمیر کا نوجوان بھی اس کا ہق رکھتا ہے اور انہیں تعلیم، صحت عامہ اور بہترین سماجی زندگی گزارانے کے لیے اس شعبے میں جدت چاہیے جس کے لیے آزاد کشمیر بھر میں ای لائبریریز بھی قائم کی جاسکتی ہیں اور گھر کی دہلیز پر سماجی سہولتوں کی فراہم ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے یہ وژن لے کر ہی وہ میدان میں اترے ہیں، نوجوانوں کے لیے سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے بھی وہ سوچتے ہیں یہی بات کچھ لوگوں کو گراں گزرتی ہے، سیاست کا مروجہ اصول یہی سمجھا جاتا ہے کہ مخالفین کو نیچا دکھایا جائے اور ہر کوئی اسی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ اسے دوسرے سے اعلیٰ و ارفع سمجھا جائے، لیکن انہیں اس بات کا لحاظ ہے ان کے کہے گئے بول سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، وہ سیاست کو خدمت اور فرض جان کر آئے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ فرض کی ادائیگی میں مقابلے نہیں ہوتے،بس ادائیگی ہوتی ہے،جانتے ہیں کہ پھل ہمیشہ جھکے درخت کو ہی لگتا ہے، انہیں عوامی سطح کے مسائل اک بھرپور ادراک ہے وہ یقیناً اس بات سے بھی واقف ہیں کہ عالمی سطح پر صحت عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے ذمہ دار اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی، عالمی ادارہ صحت یا عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال مارچ میں COVID-19 پھیلنے کو وبائی بیماری قرار دیا تھا آزاد جموں و کشمیر میں جہاں تک اس کے صحت کے شعبے کا تعلق ہے۔

(جاری ہے)

یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں ہوگا کہ سال بھر یہ صحت کی ایمرجنسی کی ورچوئل حالت میں رہتا ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کی جغرافیائی سیاسی اور سخت موسمی صورتحال ہے۔ خطے میں کسی بھی تیسری نگہداشت کی سہولت کی عدم موجودگی ہے اور، اسپتالوں میں بھی لیب کی سہولیات، بستروں، ہنگامی ادویات اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی کمی ہے صحت کی دیکھ بھال کے غیر موثر نظام کی وجہ سے مریضوں کو پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہے خوش قسمتی سے اس خطے میں چار میڈیکل کالجز موجود ہیں، جو ایک سال میں 400 سے زیادہ ڈاکٹر پیدا کرتے ہیں، لیکن ان کے کیریئر کے بعد کے مرحلے میں ان کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے کوئی موثر، طویل المیعاد پالیسیاں تشکیل نہیں دی گئیں صحت کے شعبہ کی بہترین تقری کے لیے اس شعبے میں طویل المعیاد پالسیوں کی ضرورت ہے اور یہ نکتہ سردار تنویر الیاس کی ترجیحات میں سب سے پہلے نمبر پر ہے آزاد جموں و کشمیر میں صحت کے بنیادی ڈھانچے میں ایک منظم بہتری لانا عوام کی بہتری کے لیے ان کی سوچ کا حصہ ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں صحت عالمی ترجیح بن رہی ہے اسی لیے آزاد جموں و کشمیر کے بجٹ صحت کے لئے ایک وسیع رقم مختص کرکے انفراسٹرکچر بنایا جائے ڈبلیو ایچ او کے رہنما خطوط کے مطابق، ایک ہزار افراد کے لئے کم از کم ایک ڈاکٹر ہونا ضروری ہے، آزاد جموں کشمیر میں، 0.4 ملین سے زیادہ آبادی کے لئے، ڈاکٹروں کی تعداد سیکڑوں میں بمشکل ہے۔

اسی طرح خطے میں 100 سے کم ڈینٹل سرجن موجود ہیںآ زاد جموں و کشمیر میں کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی (سی ٹی) اسکین اور ایم آر آئی جیسے بنیادی طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے طبی شعبوں میں بہترین پیشہ ور افراد ہیں، جیسے کارڈیالوجی، نیفروولوجی، نیورو سرجری، اور کیا نہیں لیکن صحت کے انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی بہترین خدمات انجام دینے سے قاصر ہیں صحت کا نظام بہتر بنانا ان کی اولین ترجیح ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :