صبر اللہ کا انعام ہوتا ہے

بدھ 19 مئی 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

عین اس وقت جب اہل اسلام رمضان المبارک کے آخری لمحات میں عبادات کی معراج کے ساتھ ساتھ عید کی تیاری میں بھی مصروف تھے، اور دن گنے جارہے تھے کہ ماہ رمضان المبارک انتیس کا ہوگا یا پورے تیس کا، انہی لمحات میں بلال شمسی بھی اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے، کسی کو علم ہی نہیں تھا، اس عید پربلال شمسی اپنے بزرگ والدین، احباب، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر قیمات کے روز جنت میں ملنے کی طویل جدائی دے جائیں گے، یہ سچ ہے اور یہی ایمان ہے کہ جو اس دنیا میں آیا اسے ایک روز واپس اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے جہاں اسے حساب دینا ہے کہ زندگی کیسے گزاری؟ ایک یکسو اور حنیف مسلم، قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے لیے حنیف مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اور تفہیم القرآن میں سید مودودی رحمت اللہ علیہ نے کمال ترجمہ اور اس کی تفسیر بیان کی ہے، بیٹے کے جنازے پر باپ ٹوٹ کر رہ رہ جاتا ہے، اور بیٹا بھی جب جوان ہو، اور اس کا جنازہ باپ کے سامنے ادا ہورہا ہو تو حوصلے اور صبر کے ساتھ ایک طاعت گزار بندے کی طرح تحمل، صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا کسی بندے کے بس کی بات نہیں ہوتی، یہ اللہ ہی طرف سے اس بندے پر انعام ہوتا ہے، ورنہ انسان کیا کچھ کر گزرے، جناب شاہد شمسی، اللہ ان کے خاندان پر ہمیشہ رحمت کی بارش برسائے، لوگ ان سے تعزیت کر رہے تھے، وہ صبر، تحمل سے اس فیصلے کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر، یقین کرکے اور نہائت برداشت کے ساتھ اپنے بیٹے کو دنیا سے رخصت کر رہے تھے، کسی بھی انسان کو اگر دیکھنا ہوتو اس مشکل اور مصیبت کے وقت اس کا رویہ دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اعصاب کس قدر مضبوط ہیں اور بطور مسلمان وہ کہاں کھڑا ہے؟ شاہد شمسی اور ان کے خاندان کے لیے بہت سی دعائیں، اللہ انہیں ہر آزمائش سے بچائے رکھے، آمین
 دین کامل نے ہر انسان کو اہمیت دی اور اسے عزت دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا لیکن بشری کمزوریاں بھی اس کی زندگی کا حصہ بنا کر رکھی ہیں، یہ بشری کمزوریاں ہی ہیں، کہ ہر والد، ہر والدہ جنہیں اپنے جوان اولاد کو خود سے پہلے دنیا سے رخصت کرنا پڑتا ہے، وہ پریشان ہوتے ہیں، غم ذدہ بھی ہوتے، آنکھوں سے آنسو بھی نکل آتے ہیں، یہ سب کچھ ہوتا ہے، جناب حضرت ابراہیم کے انتقال کر نبی مہربان ﷺ بھی غم ذدہ ہوئے، لیکن جس نے اللہ کا حکم تسلیم کرکے یہ فیصلہ قبول کرلیا تو پھر صبر بھی اسی کے لیے ہے اور اللہ ہی ہے جو صبر دیتا ہے،
 اپنی اولاد کو اچھی دینی اور دنیاوی تعلیم دینا ہر والدین کا فرض ہے، انی اولاد کو معاشرے کے لیے ایک مفید شہری بنانا اور اسے ایک اچھا مسلمان بنانا والدین کا فرض اور ذمہ داری ہے، یقیناً شاہد شمسی ان دونوں فرائض کو بخوبی انجام دینے والوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں لہذا وہ خود بھی اور ان کی اولاد بھی خوش نصیب ہے جس کے نصیب اچھے اس کے اس جہاں میں اور اگلے جہاں میں ستارے بھی روشن ہیں اپنے نصیب پر راضی رہنا اور اللہ سے ہی مدد طلب کرنا، یہی انسانی رویہ پوری اطاعت گزار زندگی کو آب و تاب سے گزارنے کے قابل بناتاہے، شاہد شمسی ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں بہترین منتظم ہیں، انہوں نے پاکستان کی پیدائش سے لیکر آج تک کے مختلف ادوار کو دیکھا ہے، برصغیر میں پاکستان ابھرتے دیکھا، اور ڈھاکا ڈوبتے دیکھا، ملاقادر کو پھانسی پر جھومتے ہوئے بھی سنا، انہیں پاکستان سے اور ملا قادر سے بھی بہت پیار ہے، یہ خود بھی اسی راہ کے مسافر ہیں جو دین اسلام کے اس عظیم خطہ، پاکستان پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں، اور جب تک حیات ہیں یہاں قرآن و سنت کا عملی نفاذ دیکھنا چاہتے ہیں، جس طرح ہمارے ملک کے سیاسی نظام کی نج کاری ہورہی ہے اس پر انہیں بھی دکھ ہے، کہ آخر یہاں سب کچھ ہورہا ہے اگر نہیں ہورہا تو یہاں آئین کے مطابق اسلامی نظام کے نفاذ کی عمل کوشش حکومت کی سطح پر کیوں نہیں ہورہی، اپنی زندگی میں پاکستان کے لیے یہ منزل دیکھنے کے متمنی ہیں کیونکہ یہی نظام ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جس کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کے سفر کا تعین کرسکتے ہیں، ساہد شمسی سے ایک بات پھر ان سے ان کے جواں سال صاحب زادے کے انتقال پر تعزیت، اللہ مرحوم کو جنت عطاء فرمائے اور اپنے والدین کے لیے بخشش کا ذریعہ بنائے، آمین۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :