قندوز کے دینی مدرسہ پر بمباری سے 150حفاظِ قرآن کی شہادت

ہفتہ 7 اپریل 2018

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

امریکی نے دہشت اور سفاکیت کا ارتکاب کرتے ہوئے افغانستان کے صوبہ قندوز کے شہر دشت ارچی کے دینی مدرسہ پر، جب قرآن شریف حفظ کرنے والے معصوم بچوں کی دستار بندی کی تقریب ہو رہی تھی، کہ اس دوران ایک جامع مسجد پر وحشیانہ بمباری کر کے سیکڑوں حفاظِ قرآن ،دینی طالبعلموں کو شہید کر دیا۔بمباری پٹھان بازار کے علاقے میں واقع مدرسہ عاشمیہ عمریہ پرکی گئی۔

غیر جانبدار اخباری رپورٹز کے مطابق موقعہ پر ہی ۱۰۱/ حفاظِ قرآن شہید ہو گئے۔ ۲۰۰/ کے قریب بچے، مرد اورعورتیں زخمی ہوئے جنہیں مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ افغان طالبان کے مطابق ۱۵۰/ افراد اس بمباری میں شہید ہوئے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد صاحب نے اعلان کہ امریکا سے اس وہشت کا بدلہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

امریکا اس سے قبل بھی افغانستان کی ایک ہسپتال پر بھی حملہ کر کے سیکڑوں مریضوں ،جس میں بچے،بوڑھے امرداور عورتیں شامل تھیں شہید کر چکا ہے۔

پاکستان کے شہر باجوڑ کے ڈومہ ڈولہ کے علاقے میں دینی مدرسہ پر میزائل برسا کر سیکڑوں دینی طالب علموں کو موت کے گھاٹ اُتارچکاہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، امریکا نے افغانستان میں کونسی سے جگہ چھوڑی کہ جس پربمباری نہ کی ہو۔کون سا جدید ترین اسلحہ ہے جسے استعمال نہیں کیا ہو۔ امریکا اپنے جدید ترین میزئلوں کو استعمال کر چکا ہے۔ اُسامہ بن لادن کے شک میں توراا بورہ کے پہاڑوں کے غاروں پر بمباری کی۔

ڈیزی کٹر بموں سے پہاڑوں کے اندر غاروں میں چھپے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔تورا بورہ کے سارے پہاڑوں کو ڈیزی کٹڑ بم برسا کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ کارپیٹڈ بمباری کر کے افغانستان میں ہر ہلتی جلتی ہوئی چیز ،جس میں انسان حیوان شامل ہیں ختم کر چکا ہے۔ ڈرون حملے کر کے کئی بے گناؤں کو شہید کیا۔ جس سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایک نام نہاد دہشت گرد کو ٹارکٹ کر کے نشانہ بنانا ہے یا اس ٹارگٹ کے ساتھ بیٹھے سارے انسانوں ،جس میں معصوم بچے،عورتیں اور بوڑھے سب کو ہلاک ہوجائیں۔

سب سے زیادہ وزن والے بم جسے امریکا نے بموں کی ماں کا نام دیا ہوا ہے۔ اسے بھی افغانستان میں استعمال کر چکا ہے۔
امریکا کو آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ افغانستان کے مسلمان انسان ہیں،جن ہیں کہ دیو ہیں۔ شاہد اس نے تاریخ کو بھلا دیا ہے۔ جب سعد بن وقاص کی کمان میں مسلمان فوجیں ایران میں مجوسیوں پر حملہ کرنے لگیں تو درمیان میں واقع دریائے دجلہ تغیانی پر تھا۔

تغیانی کے دوران کوئی انسان دجلہ پار نہیں کر سکتا تھا۔ اسلامی فوجوں نے اس تغیانی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے۔ تو دوسری طرف مجوسی فوج کے کمانڈر نے تاریخی جملے کہے تھے” دیو آمد۔ دیو آمد“ اور بھاگ گئے تھے۔ امریکا بہادر ! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن موت آنی ہے تو کافر سے لڑ کر شہید ہی کیوں نہ ہوں جس سے جنت ملے گی۔

اور کفار سے مردانہ وار مقابلہ کیوں نہ کیا جائے کہ جب جنگ سے واپس آئیں تو غازی کہلائیں گے ۔مسلمانوں کے اس فلسفے کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ اسلام کے پہلے دور میں روم کے عسائیوں،ایران کے مجوسیوں نے دیکھا تھا۔اب قریب کے دور میں برطانیہ ،کیمونسٹ روس اور ا مریکا اپنے ۴۸/ ملکوں کی نیٹو فوجیں کے ساتھ دیکھ چکا ہے۔
انسانی تاریخ میں یہ عجیب دور گرزرہا ہے کہ مختلف وقتوں میں تین سپر طاقتوں نے افغانستان، غریب ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے، بلکہ ان کی نسل کشی کرنے کی ناپاک کوششیں کیں۔

اور یہ بھی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ اتنی تباہی کے بوجود ان تینوں سپر پاور کو افغانستان کے فاقہ مستوں نے شکست فاش دی۔ یہ غریب مسلمان ملک افغانستان اب بھی دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اور انشاء اللہ موجودرہے۔ نہ یہ پہلے کسی کا غلام رہا ہے اور نہ اب امریکی کی غلامی منظورکرتاہے۔افغانی کہتے ہیں جب تک امریکی فوجیں ہماری سرزمین سے نہیں نکلتیں جنگ جاری رہے گی۔

علامہ شیخ محمد اقبال کے شعر کے مطابق، افغانستان فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا:۔فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔۔۔یابندہ صحرائی یا مرد کوہستانی۔ دیگر مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی فطرت کے اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان ملک اور خاص کر افغانستان کے پڑوسی ملک جن میں پاکستان اور ایران شامل ہے، کھل کر اس کی مدد کرتے تو افغانیوں کوسپر پاور امریکاکو افغانستان سے نکالنے میں اتنی زیادہ قربانی نہ دینی پڑتی جتنی اب دینی پڑھ رہی ہے۔

ظالم قوتوں نے اس ملک میں ہر قسم کا انسانیت دشمن اسلحہ استعمال کر کے دیکھ لیا۔مگر ان سفاک قوتوں کو اس بہادر قوم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔امریکا کو افغانستان میں ۴۸/ نیٹو اتحادیوں سمیت غریب فاقہ مست افغانیوں نے شکست دے دی ہے۔ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے سپر پاور امریکا چاہتا کہ لوہے سے لوہے کو ٹکرا کر اپنے مقاصد حاصل کرے۔ امریکا پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ افغان طالبان سے لڑ کر اِس کو فتح دلائے جو ممکن نہیں ہے۔

اس سے قبل ہمارا بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف امریکا کی ایک کال پر گھٹنے ٹیک کر امریکا کو پاکستان کے ہوائی، بری اور بحری راستے دے چکا ہے۔ اب بھی امریکا کی فوجی نیٹوسپلائی
پاکستان کے بحری اور زمینی راستوں سے جاری ہے۔ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کو تورا بورہ بنانے والے امریکا کے خلاف پاکستان غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی نیٹو سپلائی بند کر دے؟امریکا کی جنگ سے باہر نکل آئے۔

افغان جانیں اور امریکا جانیں۔اس میں شک نہیں کہ اب امریکا پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال نہیں کر رہا ہے۔ یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان کھل کر امریکی جنگی پلان کی مخالفت کر رہا ہے۔ اب پاکستان کہتا ہے کہ ہم نے افغانستان کی جنگ میں روس کے خلاف امریکا کی مدد کر کے اُسے دنیا کی واحد سپر پاور بننے میں اپنا حصہ ادا کر چکا ہے۔ اب امریکا اور دنیا کو ڈو مور کرنا چاہیے۔

پاکستان نے اس سے قبل امریکاکے مد ِمخالف کیمونسٹ روس کے خلاف سینہ سپر ہو کر ثابت کیا کہ پاکستان امریکا کا سچا دوست ہے۔مگر دوست نما دشمن امریکا نے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے باجود پاکستان سے اپنے دعدے پورے نہیں کیے۔ امریکا نے افغانستان میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی حمایت یافتہ حکومت قائم کر دی۔ اشرف غنی کی افغان قوم پرست حکومت، بھارت کی شہ پرپاکستان میں دہشت پھیلاتی رہی اور پھیلا رہی ہے۔

اس گمان کو اب تقویت مل گئی کہ امریکا اسلامی اور ایٹمی پاکستان کے ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ سب کچھ جانتے ہوئے پاکستان نے کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کی ہوئیں تھیں؟۔کیا پاکستان کے سابق سپہ سالار پرویز کیانی صاحب کے چالیس صفحے کے خط کا ادراک نہیں کیا۔ جس میں اُنہوں نے اُوباما کو باور کرایا تھا کہ” امریکا دوستی کی آڑ میں پاکستان کے اندر افراتفری پھیلا رہا ہے۔

اس کا مقصد ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا یا انہیں اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دے دیناہے“۔ کیا امریکا کی اس پاکستان دشمنی سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو اس بات کی شہ نہ مل جائے گی کہ وہ اپنے اکھنڈ بھارت کے ڈاکرئن پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے مذید ٹکڑے کر دے جیسے وہ پہلے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے فوجی طاقت سے علیحدہ کر کے بنگلہ دیش بنا چکا ہے۔

ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکومت میں مغربی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی اور اس کا اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے کام کرتی رہی۔ پھر ہمارے سابق سپہ سالار پرویز کیانی کے وقت امریکا اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں کو پکڑ پکڑ کرپاکستان سے باہر نکالا گیا تھا۔ اس میں بلیک واٹر کا مشہور ر دہشت گردیمنڈ ڈیوس بھی شامل تھا۔امریکا کو کہا گیاتھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے سی آئی اے کے ایجنٹوں کی پاکستان کو فہرست مہیا کرے۔

جوامریکا نے فراہم نہیں کی تھی۔ اس پر پاکستان نے امریکا سے خفیہ تعاون ختم کر دیا تھا۔ پھر پریس میں یہ خبر آئی تھی ۔ امریکا نے کہا” ہم نے خود پاکستان میں اپنا خفیہ نیٹ ورک قائم کر لیا ہے“ ہم نے اُس وقت کالم لکھا تھا کہ ”کیا پاکستان امریکا کی کالونی ہے“ اصل میں ڈکٹیٹر مشرف کی طرف سے مغربی ملکوں کی خفیہ پاکستان میں کھل کام کرنے کی اجازت دی تھی۔

مقافات عمل کہ اب وہ پاکستان میں غداری اور قتل کے کئی مقدمات تاریخیں بھگت رہا ہے اور ملک سے فرار ہو گیا ہے۔
جہاں تک پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا معاملہ ہے تو اس نے تو پاکستان توڑنے کے سارے عوامل مکمل کر لیے ہیں۔ اپنے ایجنٹ ایم کیو ایم کے سابق سربراہ الطاف حسین اورامریکا کی مدد سے پاکستان کوریونیو کما کر دینے والے کراچی کو تیس سال سے ڈسٹرپ رکھا۔

جس سے پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی، سرمایا داروں نے کراچی سے سرمایا نکال لیا تھا۔اب فوجی ٹارگیٹڈ آپریشن سے کراچی کا امن بھال ہوا ہے۔ بھارت نے امریکا ، مغربی ملکوں، بشمول اسرائیل سے دفاحی معاہدے کر لیے ہیں۔ پاکستان کی مشرقی سرحد پر جنگ کا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔مغربی سرحد پر افغانستان میں امریکی مدد سے اپنی حمایت یافتہ قوم پرست حکومت قائم کروا لی ہے۔

جو پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کر رہی ہے۔ دوسری طرف ایران سے دوستی کر کے چاہ بہار بحری پورٹ کوسنبھال لیا ہے۔ مسلمان ملک بنگلہ دیش اور عرب ملکوں سے بھی دوستی اور تعلوقات استوار کر لیے ہیں۔ اپنی عوام کو پاکستان کے خلاف جنگ کے لیے مکمل بھڑکا کر تیار کر لیا ہے۔ جنگ کی تیاری بھی کر لی ہے۔ بس دو ایٹمی ملکوں میں اب صرف جنگ ہونا باقی ہے۔

صرف سوشل میڈیا پر تو قندوز کے ظلم کو خوب اُجاگر کیا گیا۔جہاں تک پاکستانی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا معاملہ ہے تو اسلامی میڈیا نے تو اس ظلم کی خبر کو مناسب جگہ دی مگر سیکولر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے اس کو کور نہیں کیا۔ بلکہ پرنٹ میڈیا کے ایک سکولر اخبار نے تو امریکا کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے ۱۵۰/ حافاظِ قرآن کی شہادت کی خبر کو اس طرح لگایا ”طالبان کمانڈر سمیت ۶۰ /افراد ہلاک“
صاحبو!کیا ان حالات میں اب وقت کا تقاضہ نہیں کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ہمارے مقتدر حلقے امریکا کی جنگ سے باہر نکل آئیں۔

امریکا کی خفیہ اطلاع پر پاکستان کے جہادی نوجوانوں کو گرفتار کرنا بند کرے اور گرفتار پاکستان کے جہادی نوجوانوں کو باعزت طور پر فوراً رہا کرے۔کیونکہ یہ ہی پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑنے والی طاقت ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء میں افغان طالبان کی کھل کر مدد کریں۔ پاکستان امریکا کی نیٹو سپلائی بند کر کے اس کو اپنے بحری اور زمینی راستے استعمال نہ کرنے دے۔

بلکہ امریکا سے افغان جنگ کے دوران نیٹو سپلائی کی وجہ سے ۱۵۰/ ارب ڈالر کے نقصان کا بھی مطالبہ کرے۔اپنی ایٹمی اور میزائل طاقت میں مذید اضافہ کرے۔نظریہ پاکستان کو اُجگر کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ایٹمی پاکستان کے حکمرانوں کو یادرکھنا چاہیے کہ پاکستان کی بقاء کایہی ایک راستہ ہے۔ اگر اِس پر اِس وقت عمل نہ کیا گیا تو تاریخ پاکستانی حکمرانوں کو معاف نہیں کرے گی۔ اللہ پاکستان اور بردر ملک افغانستان کی حفاظت فرمائے ۔ اللہ امریکا سے قندوز کے ۱۵۰/ مظلوم حفاظِ قرآن کا بدلہ لے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :