
آجکل کے پڑھے لکھے اور ماضی کے ان پڑھ
پیر 18 نومبر 2019

میر افسر امان
ترقی کی بات کی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ آج کل کے پڑھے لکھے ماضی کے ان پڑھوں سے کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا آج کے دور میں منافقت زیادہ نہیں ہو گئی ہے؟کیا جھوٹ نے ترقی کی مناز ل طے نہیں کر لیں؟کیا دھوکا دہی عروج پر نہیں؟ کیا وعدہ خلافی نے عام نہیں ہو گئی؟کیا ان سب منفی صلاحیتوں والے لوگ بڑے کامیاب انسان نہیں کہلاتے؟چاہے تجارت پیشہ لوگ ہوں ، سیاست دان ہوں یا حکمران ہوں۔
(جاری ہے)
پڑھنے لکھنے سیکھنے کا مطلب کہ کہیں سے پڑھنالکھنا سیکھنا اور اسے استعمال کرنا ہی توہے نا!چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔ یہ کام چاہے آج کے دور میں اسکولوں ، کالجوں یایونیورسٹیوں میں پڑھا، لکھا سیکھا جائے۔اکبر الہ آلہ آبادی نے یہ شعرآج کل کے پڑھے لکھے لوگوں کی لیے ہی لکھا ہے:۔
یو ں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کی فرعون کو کلاج کی نہ سوجھی
پرانے زمانے میں جب اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں نہیں ہوتیں تھیں تو لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ آسمانی کتابوں سے پڑھتے تھے اور انبیا سے جہان داری کے گر سیکھتے تھے۔یہ تو ایک اصولی بات ہے۔پہلے بھی لوگوں میں صلاحیت ہوتی تھی اور آج کل بھی لوگوں میں صلاحیت ہے۔ اس وقت صرف موازنہ کرنا ہے۔ عام طور پرپرانے زمانے کے لوگوں کو ان پڑھ کہا جاتا ہے تو کیا وہ واقعی ہے وہ ان پڑھ تھے یا کم صلاحیتوں والے تھے اوران میں کچھ بھی صلاحیت نہیں تھی تو یہ نظریہ غلط ہے۔ کیا آجکل کے زمانے کے لوگ پرانے زمانے کے لوگوں سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عظیم فاتح جنگیز خان بل لکل ان پڑھ تھا۔ اس نے یخ بستہ پہاڑوں سے اُتر کر اس وقت کی متمدن دنیا کے ملکوں کو فتح کر کے ان پر حکمرانی کی۔ جہاں اس کی وحشت کی بات نہیں صرف صلاحیت کی بات ہے۔ اسی طرح اور بھی نام ور لوگ ہوں گے جو بظاہر تو ان پڑھ تھے۔مگر اللہ کی صرف سے بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جیسے قرآن شریف میں لقمان حکیم کا ذکر جو اپنے بچوں کو حکمت کی بتاتیں بناتا ہے۔آج کل کی بڑی بڑی یونیورٹیوں کے پڑھے لکھے ہی پڑھے لکھے ہیں نہیں بلکہ پرانے زمانے میں قدرت کے آثار، دن رات، بارش، ہوا،روشنی اورآفاق میں پھیلی ہوئے دوسری چیزوں پر غور و فکر کر کے ایسی ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی تھیں کہ زندگی کی بڑی بڑی گھتیاں سلجایا کرتے تھے۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کے میناروں میں بڑے بڑے لال پتھر استعما ل ہوئے ہیں۔ یہ اتنے بھاری ہیں کہ انسان ان پتھروں اتنی بلندی تک اُٹھا کرنہیں لے جا سکتا۔یہ اُس دور کی بات ہے جب وزن کو پلی کے ذریعے بلندی تک پہنچانے کی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ بڑے بڑے لال پتھر اتنے اونچے اونچے میناروں تک کیسے پہنچائے گئے تھے۔ ایس ہی احرام مصر کی بھی بات کی جا سکتی ہے۔ عرب کے بدو جب اسلام لائے تو اللہ نے انہیں وہ صلاحیتیں عطا کیں تھی کہ وہ دنیا کے امام بن گئے۔تو معلوم ہوا کہ آجکل کے پڑھے لکھے ماضی کے ان پڑھوں سے کم صلاحیت رکھتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.