کشمیر:بھارتی پاکستانی میڈیا،عوام اور حکمران

پیر 2 دسمبر 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

بھارت کی طرف سے پاکستان پر ہوائی حملہ کے دوران بھارتی میڈیا نے سفیدجھوٹ بول کر میڈیا کی دنیا میں جھوٹ کا پہلا انعام حاصل کیاتھا۔ پاکستانی میڈیا نے صحیح رپورٹنگ کر کے سچ کا دامن تھام کر دنیا میں نیک نامی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس جنگ میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا معقول اور بہادرانہ رویہ اختیار کرکے دنیا کے سامنے حقیقت رکھی اور نیک نامی کمائی۔

اسلام جنگ میں کبھی بھی پہل نہیں کرتا۔ جنگ سے پناہ مانگتا ہے۔ جنگ مسلط کر دی جائے تو پھر شہادت یا غازی کی بات کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارتی دہشت گردوزیر اعظم مودی دھمکیوں اور جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے ملک کے اپوزیشن اور دنیا میں بدنامی سمیٹی۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ مفادات کی دنیا نے سچ جانتے ہوئے بھی بھارت پرہلکا ہاتھ رکھا۔

(جاری ہے)

ہم نے گزشتہ کالم میں واضع کیا تھا کہ کیسے دیدہ دلیری سے بھارتی حکومت اور میڈیا کشمیر بارے سفید جھوٹ بھول کر دنیا اور اپنی عوام کو اندھیرے میں رکھتا رہا۔


اگرپاکستان میں بھارتی قیدی ابھی نندن کی ہی بات کریں تو اس نے اپنی ویڈیو میں پاکستانی فوج کی تعریف کی اور بھارتی میڈیا کے لیے کہا کہ بھارتی میڈیا جھوٹ بولتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کے لیے بھارتی ٹی وی کا ایک نمائندہ بار بار اپنی عوام سے کہہ رہا کہ یہ ویڈیو پاکستان کا پروپیگنڈا ہے۔ بھارتی عوام اسے نہ دیکھے۔ اسے ڈیلیٹ کردے ا ور نہ ہی آگے شیئر کرے۔

بھارتی میڈیا کو شایدیہ معلوم نہیں کہ جس چیز کو چھپایا جائے۔ اس کو دیکھنے کی عوام میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔نہ جانے کتنے لوگوں نے اس ویڈیو کو دیکھا اور بھارت کی سبکی ہوئی ۔
مودی نے سفید جھوٹ بول کر دعویٰ کیا کہ بھارت کے ہوائی جہازوں نے پاکستان میں گھس کر بالا کوٹ میں قائم دہشت گردی کے کیمپوں کو تباہ کر ڈالا۔ ۳۵۰ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔

بھارتی میڈیا نے اس سفید جھوٹ کو خوب اُچھالا۔مگر پاکستانی میڈیا نے صحیح رپورٹنگ کر کے اس جھوٹ کا خوب توڑ کیا۔پاک فوج نے مقامی اور بین القوامی میڈیا کو جائے وقوع بالاکوٹ کا دورہ کرایا۔ میڈیا نے مقامی لوگوں کے انٹرویو جاری کیے ۔مقامی لوگوں نے کہا کہ ہاں جہازوں کی گرج گہن سنی۔ کچھ مکانوں کی دیواروں میں لکیریں بھی پڑیں مگر کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔

لوگوں نے کہا کہ ہم نے نہ کوئی جنازہ اُٹھتے دیکھااور نہ ہی وہاں کوئی بلڈنگ تھی کہ جس کو نقصان پہنچاہو۔ ہاں جنگل میں کچھ چیڑ کے درختوں کا نقصان ہوا جو گرے ہوئے ہیں۔ میڈیانے اپنی رپورٹ میں میں کہا کہ ایک گڑھے میں مرا ہوا کالا کوا دیکھا گیا ہے۔ہوا یہ کہ بھارتی سورما گھبراہٹ میں بالا کوٹ میں ایک خالی جگہ بم گرا کر بھاگ گئے۔ 
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بیان کے مطابق اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔

پھرپاکستانی جہازوں نے بھارت کے اندر گھس کر مقبوضہ کشمیر میں عین اس مقام پرجہاں بھارت کا چیف آف اسٹاف میٹنگ کر رہے تھا۔جہاں قریب بارود کا ذخیرہ بھی تھا۔ ان کے بلکل سامنے گراوئنڈ میں درجنوں بم گرائے۔ واپسی پر بھارتی جہازوں نے پاکستان کی حدود کراس کی اور جیسے ہی پاکستان میں داخل ہوئے تو پاکستانی پائلٹوں نے ان میں سے دو بھارتی جہاز گرا لیے۔

ایک کا ملبہ پاکستان میں گرا دوسرے کا مقبوضہ کشمیر میں۔پائلٹ ابی نندن کو بھی گرفتار کر لیے۔جسے بعد میں رہائی دے دی۔ پاکستانی حدود میں گرنے والے بھارتی جہاز کے جلتے ہوئے ملبے کو پاکستان میڈیا نے عوام کو دکھایا۔اس شکست کو چھپانے کے لیے موددی جھوٹ بولتا رہا کہ بھارت نے پاکستان کا ایف سولہ جہاز گرا دیا ہے۔ ثبوت مانگنے پر بیگی بلی بنا رہا۔

 جب بھارتی اپوزیشن نے ثبوت مانگے تو ان کو بھارت ماتاکا واسطہ دے کر کہا کہ آپ کیسے بھارتی ہو کہ مجھ سے ثبوت مانگتے ہو؟مودی کی قوالی کے پیچھے بھارتی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا تالیاں بجاتا رہا۔بھارتی میڈیا مودی کے جھوٹ کو دنیا اور اپنی عوام کے سامنے بیان کرتا رہا۔ پاکستان نے مودی کے جھوٹ کے سامنے کہا کہ پاکستان نے اس جنگ میں ایف سولہ جہاز استعمال ہی نہیں کیا۔

امریکی کمپنی جوایف سولہ بناتی ہے اس نے پاکستان کا دورا کیا۔ پاکستان کو سپلائی کیے گئے اپنے ایف سولہ جہازوں کی گنتی کر کے بیان جاری کیا کہ پاکستان کو سپلائی کیے گئے ایف سالہ سارے کے سارے پاکستان کے پاس موجود ہیں۔
اس سے آزاد دنیا میں بھارت کی سبکی ہوئی۔ یہ وہی بات ہوئی جب ۱۹۶۵ء کی جنگ ہوئی تو ریڈیو پاکستان پر گایا گیا، نفیس فریدی ایک نغمہ بہت ہی مشہور ہوا تھا۔

” پاکستانی بڑے لڑیّا۔جنکی سہی نہ جائے مار“ جنگ کے دوران بھارت کا پاکستانی میڈیا نے یہ کہہ کر خوب تمسکر اُڑیاتھا کہ” اِب کی مار کے دیکھ“۔ پاکستان نے بھاتی فوج پر بحری، بری اور زمینی برتی حاصل کی تھی۔ہوا میں ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں ۶ جہاز گرائے، بحر میں پاکستانی فوج نے دوارکا تباہ کیا ۔ پاکستانی سمرین نے مبمئی پورٹ سے طیارہ بردار بحری جہاز کو باہر نہیں نکلنے دیا اور بری فوج اکھنور اور مونا باؤ تک پہنچ گئی تھی۔

مگر جھوٹ کے بجاری بھارتیوں نے پاکستان سے زر خرید لکھاریوں اورملالہ جیسی مغربی ڈمی سے ۱۹۶۵ء کی جنگ جیتنے کا پروپیگنڈا کیا۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ کسی بھی وقت بھارت ایک بار پھر اپنی سابقہ روش پر عمل کرتے ہوئے کوئی جھوٹا دھماکہ کر کے ،الزام پاکستان پر لگا کر آزاد کشمیر پر حملہ کر سکتا ہے۔ایک تو اسے اپنی شکست کا بدلہ لینا ہے ۔

دوسرا وہ آزاد کشمیر پر حملہ کے اسے بھارت میں شامل کرنا چاہتا ہے۔تیسرا وہ اپنے پرانے ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کوختم کر کے اکھنڈ بھارت بناناچاہتاہے۔اکھنڈبھارت کے نقشے بھی جاری کر چکا ہے جس میں کابل سے انڈونیشا تک شامل ہیں۔ بھارت نے اپنی آئین، کشمیری پارلیمنٹ اور ساری اخلاقی اور بین لاقوامی پابندیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر کی خصوصی دفعات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے کشمیر کو زور ،ذبردستی سے بھارت میں ضم کر لیا ہے۔

پاکستان کی شہ رگ کاٹ دی ہے۔ شہ رگ کے کٹنے سے پاکستان زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ہم اپنے کالموں میں بار بار اہل اقتدار کو الرٹ کرتے رہے ہیں کہ جیسے بھارت پاکستان دشمنی میں اپنی قوم کو جنگ کے لیے تیار کر چکا ہے۔
 مشرقی پاکستان کو توڑتے وقت سپر پاور روس سے دفاحی معاہدہ کیا تھا۔ اب متوقع جنگ سے پہلے امریکا کے ساتھ دفاحی معاہدہ کر لیا ہے۔

اسرائیل بھارت کی اعلانیہ مدد کر رہا ہے۔ان حالات میں حکومت، فوج، سیاست دان اور عوام کو ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ سیاست دان اپنی سیاست کو ایک طرف رکھیں۔ اگر پاکستان ہے تو سیاست بھی ہے۔ پاکستان کو بھی چین سے دفاحی معاہدہ کرنا چاہیے۔ اپنی قوم کوبھارت کی طرف سے متوقع جنگ مسلط کرنے پر تیار کرنا چاہیے۔نمبر :۔۱۔ حکومت کو پاکستان میں مدینہ کی فلاحی ،جہادی ریاست کا اعلان کر دینا چاہیے۔

۷۲ سال سے پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ “ کو ترسنے والی پاکستان قوم ،فوراً سیاست دانوں کو چھوڑ کر، یک جان ہو کرحکومت کی پشتی بن جائے گی۔نمبر:۔۲۔ اس کے بعدپاکستان میں تحصیل لیول سے اوپر تک پوری پاکستانی عوام سے ”پاکستان کی حفاظت“کے نام پر مدینہ کی فلاحی، جہادی ریاست پاکستانی عوام سے بیت لینی چاہیے۔ نمبر:۳۔ علماء سے مشاورت کے بعدمملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاد فی سبیل اللہ کا فوراً اعلان کرنا چاہیے۔

۷۲ سال سے دشمن نے جس قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے وہ یک جان ہو جائے گی۔ 
تاریخ، خاص کر اسلامی تاریخ کاطالب علم ہونے کی بنیاد پرہم اپنے مقتدر حلقوں سے عرض کرتے ہیں کہ ان تین کاموں کے بعد ایٹمی جنگ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ موت سے ڈرنے والی مشرک بت پرست مایا کی پوجا کرنے والے ہندو سماج اور یہودیوں کی طرح ہزار ہزار سال زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے ہندو ،پاکستانی عوام، جو جہادی اور غازیوں کا معاشرہ ہے، سے صلح کی بھیک مانگنے پر تیار ہو جائیں گے۔

اچھی بات ہے کہ کچھ اخبارات اپنے مین صفحوں پر کشمیر میں جاری کرفیو کے دنوں ( یعنی آج اتنے دن ہو گئے ہیں)کونمائیں کر رہے ہیں۔ یہ کام پاکستان کے سارے اخبارات کو شروع کر دینا چاہیے۔بڑی بڑی عمارتوں کے مین گیٹ پر کشمیر میں جاری کرفیو کے دنوں کی گنتی کو الیکٹرونک ڈیوائس سے نمائیں کرنا چاہیے۔
 پاکستانی معاشرے کے ہر گروہ یعنی سیاسی پارٹیوں،صحافیوں، وکیلوں،سول سوسائٹی وغیرہ کوروزانہ کی بنیاد پر آزاد کشمیر جاکر کم ازکم چکوٹی تک احتجاجی مارچ کرکے مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔

پاکستانیوں!اگر ہم محمد بن قاسم بن کرکشمیر کی دھکیا اپنی عورتوں کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتے تو جو کر سکتے ہیں وہ تو کریں۔ تکمیل پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگ کی مدد کریں۔ اچھی بات ہے کہ حکومت پوری دنیا کے پاکستانی سفارتانوں میں کشمیر ڈسک بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صاحبو! بھارت نے ہماری شہ رگ کو کاٹ دیا ہے۔ ہماری زندگی اور موت کاسوال ہے۔ پاکستان ہے تو سیاست ہے اگر خدا ناخواستہ پاکستان نہیں تو سیاست کہاں؟ لہٰذا ہم سب پاکستانی یک جان ہو کر اپنی کٹی شہ رگ کو کسی نہ کسی طرح بچا کر پاکستان کے ساتھ ملانے کی مندرہ بالا سفارشات کو عمل جامع پہنانے کے لیے حکومت وقت کی مدد کرنا چاہیے۔ اللہ کشمیریوں کی فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :