
سانحہ بلدیہ فیکٹری مقدمے کا فیصلہ
جمعرات 24 ستمبر 2020

میر افسر امان
اس فیصلے پر شہید مزدوروں کے لواحقین سرپا احتجاج بن کر جماعت اسلامی کراچی کے دفتر پہنچے۔ جماعت اسلامی ان مظلوں کی پہلے دن دار رسی کرتی رہی ہے۔انہوں نے امیر جماعت اسلامی حافظ انجینئر نعیم الرحمان صاحب سے اپنے تحفظات کو عدلیہ اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی درخواست کی۔
(جاری ہے)
امیر جماعت اسلامی کراچی نے مزدوروں کے ان لواحقین کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔
اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جل جانے والوں کے لواحقین اور متاثریں کی امیدوں کے مطابق نہیں۔ان کو امید تھی کہ ۸ سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری فیصلہ میں ماسٹر مائنڈ ، منصوبہ سازروں اور فیکٹری میں مزدوروں کو جلانے والے سب کو سزا ملنی چاہیے تھی جو نہیں ملی۔بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو جن کی ایما پر جلا دیا گیا اور جن لوگوں نے فیکٹری کو گھیر کر مزدوروں کو باہر نہیں نکلنے دیا، ان کو بھی سزا ملنی تھی مگر ان کو بھی سزا نہیں دی گئی۔اس لیے پاکستان کی سپریم کورٹ سے ہم درخواست کرتے ہیں کے جل جانے والوں کی لواحقین اور متاثرین کی داد رسی کے لیے انصاف دلایا جائے۔پریس کانفرنس میں جل جانے والے مزدوروں کے بزرگ ،خواتین اور بھی شامل تھے۔جنہوں نے خود اپنے تحفظات کو عوام کے سامنے بیان کیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران مکمل انصاف نہ ملنے پر مر جانے والوں کے پیارے بزرگ و خواتین غم میں رو رو کرنڈھال ہو رہے تھے۔انہوں نے منصوبہ کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کی طرف سے عوام کو قانونی و اخلاقی ریلیف پہنچانے کے لیے قائم کردہ” کراچی پبلک کمیٹی“ کے صدر نجیب ایوبی صاحب بھی شریک تھے۔ ان مظلوں کے رشتہ داروں پر مشتمل ایک پبلک ایڈ کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی کے نگراں محمد صابر،محمد اسراراکرام اور دیگر بھی موجود تھے۔جماعت اسلامی کے سیکرٹیری اطلاہات سیدزاہد عسکری اورعثمان فاروق ایڈوکیٹ بھی اس احتجاجی پریس کانفرنس میں موجود تھے۔امیر جماعت کراچی نے کہا وہ دہشت گردی کی عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی درخواست کر تے ہیں کہ لواحقین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے۔لواحقین کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا۔ جرمنی کی کمپنی کی طرف سے جل جانے والوں کے لواحقین کو فراہم کیے گئے ۵۲ کروڑ ابھی تک لواحقین کو نہیں دیے گئے۔اس رقم پر سندھ حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ہمارا مطالبہ کہ لواحقین کو یک مشت یہ امدادی رقم دی جائے۔ سانحہ بلدیہ کا یہ مقدمہ ۸ سال سے عدالتوں میں چلتا رہا۔ اس دوران جن بڑو ں کے نام مقدمے میں آئے وہ آج بھی مختلف جماعتوں میں شامل ہیں۔ کچھ واشنگ مشین میں دھل کر صاف ہوگئے ہیں۔جن دو مجروں کو سزا سنائی گئی وہ تو سامنے کے کردار ہیں۔لیکن ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو تحفظ دیا جاتا رہا۔ وہ آج بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ اس کے علاوہ انصاف ملنے میں بھی بہت دیر ہوئی ہے ۔ قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہیں۔ انگریزی قانون میں انصاف دیر سے اور آدھا ملتا ہے۔ سانحہ بلدیہ” پبلک ایڈکمیٹی“ کے عہداداروں نے کہا کہ فیصلہ ۱۷/ ستمبر کو آنا تھا جسے کچھ دن لیٹ سنایا گیا۔ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے جن بڑے لوگوں کے نام جے آئی ٹی میں آ تے رہے ان بڑوں کو بچا لیا گیاہے؟ صرف نیچے والوں کو سزا سنا دی گئی۔ اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے ۔
صاحبو!دہشت گرد ، فاشست اورمصنوعی مہاجر قومیت کے نام پر ملک میں دہشت پھیلانے اور بے گناؤں کے قاتل غدار پاکستان الطاف حسین ہزاروں بے گناہوں کے قاتل ہیں۔ پاکستان کے غدار ہیں۔پاکستان کی سینیٹ، قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسبملیوں ،بلدیاتی ادروں سب نے الطاف حسین کی دہشت گردی پر اس کے خلاف آئین ِپاکستان کی دفعہ ۶ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے قراردادیں منظور کی تھیں۔ ان قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔پاکستان کے ہر بڑے شہر کے محب وطن عوام نے دہشت گرد الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف غدراری پر ایف آئی آر کٹوائیں تھیں۔عدالت نے الطاف حسین کی تصویر تقریر پر پابندی تو لگائی تھی مگر مرکزی حکومت نے الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم نہیں کیا؟ الطاف حسین نے شروع میں ہی ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ہدایت دی تھی ۔” موت یا حقوق“ کارکنوں سے کہا تھا کی ٹیلیویژن اور وی سی آر فروخت کر کے اسلحہ خریدو۔جب عامر خان اورآفاق احمدنے الطاف حسین سے دہشت گردانہ کاروائیوں پر اختلاف کیا، تو الطاف حسین نے حکم دیا کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔ پورے کراچی شہر میں اس سلوگن کے پوسٹر لگائے گئے۔ پھر مخالفوں کا عام قتل شروع ہوا۔ الطاف حسین کے دہشت گردوں نے ایک دن میں سو سو(۱۰۰) مزدوروں کو شہید گیا ۔ ایک سو پر تشدد ہڑتالیں کی گئیں۔ اعلان ہونے پر دہشت گرد شہر میں قتل و غارت شروع کر دیتے ۔ شہری اور تاجر خوف کے مارے گھروں میں چھپ کر بیٹھ جاتے۔اسی بلدیہ کی فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں کابھتہ مانگا گیا۔ْ نہ ملنے پر اندر کام کرنے والے مظلوم مزدروں کو فیکٹری میں بند کر کے تالے لگا دیے گئے۔ بے گناہ۲۵۹ مزردوں کو فیکٹری کے اندر ہی زندہ جلا دیا گیا۔ سفاکیت یہ ایک واقعہ سامنے آیا۔ ورنہ ایسے چھوٹے چھوٹے ہزاروں واقعات ہوئے جن کو لوگوں نے خوف اور ڈرکی وجہ سے رپورٹ نہیں کیا۔ ایک طویل مدت ۸ سال بعد عدالت نے فیصلہ سنایا۔ دیر آمد درست آمند، جو اچھی بات ہے، مگر شہیدمزدوروں کے لواحقین کے دلوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچی۔ ان کے مطابق سانحہ بلدیہ کے ماسٹر مائنڈ دہشت گرد الطاف حسین، سہلولت کار، فیکٹری کو گھیرنے والوں اور جن جن کے نام جے آئی ٹی میں آئے ان کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اللہ مظلوں کا مددگار ہو آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
میر افسر امان کے کالمز
-
پیٹ نہ پئیں روٹیاں تے ساریاں گلیں کھوٹیاں
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایران اور افغانستان
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
جہاد افغانستان میں پاک فوج کا کردار
منگل 16 نومبر 2021
-
افغانوں کی پشتو زبان اور ادب
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
افغانستان میں قوم پرست نیشنل عوامی پارٹی کا کردار
جمعہ 5 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران - آخری قسط
منگل 2 نومبر 2021
-
افغان ،ہندوستان کے حکمران
ہفتہ 30 اکتوبر 2021
-
افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 4
بدھ 27 اکتوبر 2021
میر افسر امان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.