پورس برصغیر کا گمنام 'ھیرو'

پیر 4 جنوری 2021

Mirza Saad Baig

مرزا سعد بیگ

پورس برصغیرکےعلاقےپنجاب کا بادشاہ تھا۔ جو کہ موجودہ پاکستان کے دریاۓ جھلم اور چناب کے درمیان کےحصے میں آتا ہے۔وہ اپنی مضبوط اور طاقتور سلطنت کی وجہ سے بہت مشہورتھا۔ ھاتھی بھی پورس کی وجہ شہریت تھی۔ جس پر بعد میں ایک مشہور مصنف نسیم حجازی نے اپنی ایک کتاب کے لیے 'پورس کے ھاتھی' بطورعنوان استمعال کیا ۔
یہ بات قبل مسیح کی ہے کہ جب یونان کے مشہورجنگجوسکندراعظم پوری دنیا پر حکومت کا خواب لے کر نکلے تھے۔

تو وہ یونان سے ہوتے ھوۓ دنیا کے مختلف حصوں پر قبضہ کرتے ہوۓ وہ سلطنت فارس تک پنہچ گۓ تھے جہاں پر اس نے فارس کے بادشاہ باریوس کو شکست دی۔ فارس پر قبضہ کرنے کے بعد اس کے کچھ ساتھی یہ سمجھ رہے تھے کہ شائد اب ہم واپس اپنی سلطنت کی طرف لوٹ جائیں مگر سکندراعظم نے اس کے برعکس آگے بڑھنے کو اپنے لیے بہتر سمجھا۔

(جاری ہے)

اور اس کے بعد اس نے برصغیرکو اپنا اگلا جنگ کا ٹھکانا بنایا۔

جس کے لیے وہ وسطی ایشیا سے ہوتے ہوئے وہ کوہ ہندوکش کے مقام پر پہنچا۔ اورہاں ھائدسپس
کے مقام پراپنے خیمے لگا لئے۔
سکندراعظم کو سکندراعظم کیوں کہا جاتا ہے؟
 کیونکہ سلطنت فارس کے قبضے کے بعد اس نے اپنا روپ کو فارس کے بادشاہوں کی طرح ڈھل لیا تھا۔ اور ویسے بھی ایشیا کے لوگوں کے لئے الگیزنڈر دی گریٹ کہنا مشکل تھا جو کے یونانی الفاظ تھے تو ایشیا کے لوگوں نے اس کو سکندرکہنا شروع کر دیا جو کے فارسی کے لفظ ہیں۔

سکندراعظم نے پورس کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے دریائے جہلم کےشمالی مشرقی سائد پر ھائدس پس کے مقام پر ڈیرے جما لئے کافی سوچ وبیچارکے بعد اس نے راجہ پورس کی سلطنت پرحملے کی ترکیب سوچ لی تھی۔ ادھر دوسری طرف راجہ پورس بھی اپنی آب وتاپ کے ساتھ اس کا مقابلہ کے لیے اپنی فوج کو ھاتھیوں کے ساتھ اتار چکا تھا۔ مگر سکندر اعظم اپنی جنگی حکمت و عملی کی وجہ سے کافی شہریت رکھتا تھا۔

اس نے اپنی آدھی فوج کو اسی ہی مقام پر رکھا جہاں پر اس نے خیمے لگائے تھے اور آدھی کو اس مقام پر لے گیا تھا جہاں پر دریا کے دونوں کناروں کے درمیان کم فاصلہ تھا دریا میں سردی کی وجہ سے پانی بھی کم تھا اس لئے اسکی فوج نے آسانی سے دریا کو عبور کر لیا اور ان پرحملہ آور ہوگئے۔ ادھر پورس کہ جب اس کی خبر ہوئی تو اپنے بیٹے کو ادھر ان کے مقابلے کے لئے بھیج دیا جو کے ناکام ہوا اور مارا گیا۔

اس کے بعد پورس خود جنگ میں آ گیا پورس اس جگہ پہنچ گیا جہاں پر اس کے بیٹے کو سکندر کی فوج نے مارا۔ اور دوسری طرف سکندر کی باقی فوج جو خیمے کے ساتھ سکندر کے حکم پر کھڑی تھی جن کو یہ حکم تھا کے جب پورس کی فوج اور ھاتھی ادھرسے ھٹیں گی تو آپ لوگوں نے دریا کو عبور کرنا ہے اور پیچھے سے حملہ آور ہونا ہے اس طرح سے ہم پورس کو دونوں طرف سے گھیرکراس کی قمر توڑ دیں گے اور ہم اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اور اس سخت حملے کی وجہ سے پورس کے کچھ ھاتھی زخمی ھوئے اوروہ میدان بدر ہوگئے۔ مگر دوسری طرف پورس نے ڈٹ کرسکندرکا مقابلہ کیا اس وقت سکندر اعظم کے یہ الفاظ تھے ” کہ اس سے پہلے میں نے کبھی اپنی زندگی میں  اس قدرمزاحمت خیز جنگ نہی دیکھی'' وہ اس جنگ کو ختم کرنا چاہتا تھا مگر پھر اس کو خبر ملی کی پورس زخمی ہوگیا اور واپس اپنے خیمے کی طرف چلا گیا ہے۔

پھر سکندر
 اعظم نے اپنا جنگ کوروکنے والا ارادہ ترک کر دیا اور جنگ کو جاری رکھا۔ سکندر نے اپنا ایک خاص آدمی پورس کی طرف بھیج دیا کہ آو ہم بات کرتے ہیں
کہ آگے جنگ کو ختم کر دیتے ہیں کیونکہ تم زخمی ھوگئے ھواورتم جنگ بھی ھار ہی گئے ہو۔ جب پورس، سکندر کے پاس گیا تواس نے پوچھا کے اب تمھارے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے۔ پورس نے جواب دیا کہ جیسے ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے۔

پورس کے یہ الفاظ سکندراعظم کو بہت اچھے لگے اور اس لئے اسکو وہ ریاست واپس کر دی اور اس کو اپنے ماتحت بادشاہ بنا دیا۔اس کے بعد سکندر ایک موزی بیماری میں مبتلا ہوکروفات پاگیا اور اس طرح یہ سکندر کی زندگی کی آخری جنگ ثابت ھوئی۔ گو کہ سکندراعظم کی وفات کے بعد اس ایک جرنیل نے پورس کو قتل کر دیا۔ سکندراعظم نے راجہ پورس کو اپنے وقت کا عظیم بادشاہ کہا جس نے ڈٹ کر میرا مقابلہ کیا بھلے ہی آخر میں وہ شکست کھا گیا تھا اس کے باوجود بھی وہ نڈر بادشاہ تھا۔راجا پورس نے دنیا کے اس جنگجو کے لئےاتنی مشکلات پیدا کی کہ جس کے بارے میں کہا جاتا کہ اس کے گھوڑے پوری دنیا میں دوڑے ہیں۔ راجا پورس بر صغیر کا ایک گمنام ھیرو ہے۔ لیکن آخر کیوں، اس کو نظرانداز کر دیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :