دھول

جمعہ 29 اکتوبر 2021

Misbah Chaudhry

مصباح چوہدری

کئی دن بعد جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا تو مٹی کی ہلکی سی خوشبو ناک کے نتھنوں سے کہیں دل میں اتر گئی. چیزوں کو بغور دیکھنے پہ پتہ چلا کہ مٹی کی ایک دبیز تہہ نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. ماں باپ پہ نظر پڑی تو برسوں کی مسافت انکے چہروں پہ تھکاوٹ اور تنہائی کے احساس کے ساتھ واضح تھی. آنکھوں سے بہتے آنسو اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کا امتزاج اسکی رگوں میں بہتی اذیتوں کو بڑھا رہا تھا.

کتنا کچھ تھا سوچنے کو, کتنی باتیں, کتنے شکوے تھے جو کبھی ہونٹوں تک نہیں آئے, کتنی سسکیاں تھی جو حلق میں دم توڑ گئیں.

(جاری ہے)


ایسا پہلی بار نہیں تھا کہ گھر کا ماحول بدلا ہوا ہو, پچھلی بار بھی جب وہ گھر رہنے آئی تھی تو اس نے محسوس کیا تھا کہ سب بدل رہا ہے مگر بدلاؤ کی وجہ نہیں سمجھ پا رہی تھی. بستروں کی میلی ہوتی چادریں اور امی جان کی خاموشی اسکے لیے پیغام تھی جسے وہ سمجھ نہ پائی تھی.

مگر اب کی بار ہر چیز پہ جمی دھول شاہد تھی کہ اسکے اندیشے سچ ہو رہے ہیں.
دھول صاف کرتے کئی بار لگا کہ یہ ماں کی جوانی ہے جو لحظہ لحظہ ان سے الگ ہو کر گھر کی پر چیز میں منتقل ہو رہی ہے. یہ منتقلی ماں کو بوڑھا اور کمزور کرتی جا رہی ہے. یا پھر یہ دھول ہمارے رشتوں کی ہے جسے ہر چیز نے قبول کر لیا ہے. یہ میلوں کی دوری اب گھر کی ہر چیز سے عیاں ہو رہی تھی.


سوچنے کو بہت کچھ تھا مگر کہنے کو الفاظ نہیں تھے. اسکو تو خبر تک نہیں ہوئی کہ جن دنوں وہ دوسروں کے کیے کی سزا خود کو دے کر پہروں محبت کے لیے آنسو بہایا کرتی تھی, کتنی ضرورت تھی اسکے گھر کی محبتوں کو اسکی. مگر کسی ایک کی چاہ میں کتنی چاہتیں خود پہ حرام کر لیں تھیں. انہیں آنسوؤں میں باپ کی محنت ماں کی مامتا سب بہا دیا تھا. مگر جو نہیں بہا تھا وہ بیوفائی کا درد تھا.

وہ اذیت تھی جو رگ و جاں میں سرایت کر گئی تھی جسکے آگے اپنا وجود بے معنی ہو گیا تھا اور خود سے جڑے رشتے یتیم.
کتنے سال باپ نے باہر کی مشقت چہرے سے عیاں نہیں ہونے دی. کہاں کس نے کیا کہا, کبھی لہجے سے ظاہر نہیں ہونے دیا. وہ جانتی تھی بابا بہت کمزور دل کے انسان ہیں. بچپن میں روزہ رکھ کے رویا کرتے تھے کے بھوک سے مر جاؤنگا. کبھی سر درد ہوتا تو کہتے کہ اب بچنا مشکل ہے.

اسکو یاد تھا جب ایک بار بابا بائیک سے گرے تھے تو کتنا روئے تھے ڈاکٹر نے کہا معمولی چوٹ ہے مگر وہ ماننے کو تیار نہیں تھے رو رو کے محلہ اکٹھا کر لیا تھا. مگر اب, اس نے کبھی بابا کو روتے نہیں دیکھا تھا. یہاں تک کے جب انکے ہاتھ پہ چوٹ آئی تب بھی نہیں, بخار ہوا تب بھی نہیں. اب سر کا درد انکو تکلیف نہیں دیتا تھا یا پھر وقت نے سارے آنسو خشک کر دئیے تھے.


اس نے اپنی ماں کو اٹھارہ گھنٹے کام کرتے دیکھا تھا, پھر بھی وہ گھر ایسے صاف رکھتی تھیں کہ گماں ہو یہاں کوئی رہتا ہی نہیں, ہر چیز اپنی جگہ پہ ہوتی تھی. مگر اب, اب تو بیٹھنے کا کمرہ گرد آلود تھا اور ماں خاموش تھی.
یہ دھول ہی تھی جو اسکی آنکھیں کھول رہی تھی رشتوں کے چہرے انکا مقام صاف نظر آ رہے تھے مگر سوائے بے بسی کے یہاں کچھ نہیں تھا.

اسکو لگ رہا تھا کہ دل پھٹ جائے گا مگر دھول کی ایک چادر دل کے گرد بھی تھی جو بچائے ہوئے تھی. اسکو جانا تھا وہ رہ نہیں سکتی تھی. گھر صاف ہو گیا تھا. مٹی کہیں نہیں تھی. ماں کا چہرہ باپ کی آنکھیں نور سے بھری ہوئیں تھیں وہ جانتی تھی کہ نور اولاد سے محبت کا ہے اور اسکے جاتے ہی یہ انکھیں بھیگ جائیں گی یہ روشنی اداسی کے سائے میں ماند پڑ جائے گی.

مگر ایک امید تھی ہمیشہ کے لیے واپس آنے کی امید جو مایوسی کی ان تاریک راتوں میں چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھی. ہاں یہ بڑھتی تھی گھٹتی تھی مگر مستقل تھی. اور شاید یہی امید ان رشتوں میں زندگی کی وجہ تھی.
اور پھر واپسی کا دن آ گیا,کہتے ہیں واپسی کا سفر آسان نہیں ہوتا مگر آنے کے لیے جانا تو پڑتا ہے دل و دماغ کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ وہ جانا نہیں چاہتے مگر تقدیر میں جانا لکھا ہو تو قدم خود بخود راستوں پہ چل پڑتے ہیں.

ایسا ہی اسکےساتھ ہوا مادرِ علمی کی جانب واپسی ڈھیروں امیدوں کے چراغ لیے وہ اندھیری رات میں گھر سے نکلی تھی. جانتی تھی کہ رات کے کسی پہر اسکو نیند آ جائے گی اور پھر یہ ملنا خواب کی طرح ہوجائے گا جب جاگے گی تو وہی دنیا اور دنیا والے ہونگے. ایسا ہی ہوا آنسؤوں سے بوجھل پلکیں اب تھک کے بند ہو رہی تھیں. آنکھیں درد میں شریک تو تھیں مگر اپنا پانی ختم ہونے کی شکایت لیے کافی سوجھ گئی تھیں اور پھر نہ جانے کب وہ نیند کی آغوش میں تھی.

آنکھ کھلی تو شہر اقتدار کی ہوائیں اداسی کے پھول لیے استقبال میں تھیں.
بہت کچھ تھا جو بدل گیا تھا. اب کام کرنے والی آنٹی ایک مجبور ماں دکھائی دیتی تھی اسکے مٹی صاف کرتے ہاتھ کبھی چہرے پہ وقت کی دھول کو صاف نہیں کر پائے تھے. ایک عورت سے ماں تک کے سفر میں کتنا کچھ سہا ہو گا اور اب اسے فرق ہی نہیں پڑتا ننگے پیر ہوں کے ننگا جسم وہ بس بچوں کا سوچتی ہے انکے لیے جیتی ہے.


دوسری طرف سڑکوں پہ پھرتے مرد اب آوارہ نہیں لگتے تھے بلکہ انکو دیکھ کے وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ گھر کی سلطنت کے بادشاہ باہر کتنا کچھ سہتے ہیں. اس نے جان لیا تھا کہ موٹر سائیکل پہ باپ یا بھائی کے پیچھے بیٹھنا اسکو کتنی ہواؤں کے تھپیڑوں سے محفوظ رکھتا تھا کتنی نظریں تھیں جو ان کندھوں سے ٹکرا کے لوٹ جاتی تھیں. مگر اس شہر میں وہ تنہا تھی.


یہاں ہر چہرے پہ دھول تھی, اسی رشتوں کی دھول نے کتنے کردار گرد آلود کر دئیے تھے اور کتنے دل تھے جو دھول شریانوں  میں جمنے کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ گئے تھے. کئی گھروں کے چراغ یہاں گُل ہو رہے تھے مگر کسی کو پرواہ نہیں تھی. کوئی نہیں جانتا تھا کہ ماں باپ بہن بھائی کس حال میں ہونگے؟ کسی کو خبر نہ تھی کہ لزانیہ کی تہوں میں ماں کے کتنے ارمان دفن تھے باپ کی محنت کی کووٹنگ کسی کو دکھائی تک نہیں دے رہی تھی.

باپ بھائیوں کی مشقت پیزے شوارمے اور براؤنیز کی نظر ہو رہی تھی. عزتوں کے پاسدار زلفوں کے اسیر ہو رہے تھے. ثقافت اور روایات کو روز شام کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑایا جاتا تھا. ایک دوڑ تھی جس میں سب دوڑ رہے تھے. منزل سے بے خبر, بیمار ذہن, نوکری کی تلاش میں ڈگریوں کے انبار لگاتے علم و حکمت سے عاری.
کیا یہی وہ کل تھا جسکے لیے ماں باپ اپنا آج قربان کر رہے ہیں؟ اسکی ایک ڈگری ماں باپ اور بھائیوں کی دن رات کی محنت کا شاخسانہ تھی مگر وہ کہاں تھی کوئی نہیں جانتا. شاید گھر کے کونے سے مٹی صاف کرتی وہ تو وہیں مٹی ہوگئی تھی. اب تو اسکی دھول بھی ہوا میں تحلیل ہو چکی تھی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :