محرم کی حرمت‎‎

بدھ 18 اگست 2021

Misbah Chaudhry

مصباح چوہدری

کبھی کبھی عقل دنگ رہ جاتی ہے عقیدہ ماتم کرنے لگتا ہے کافر کافر کی صدائیں مسلمانیت اور انسانیت سے کہیں بلند ہو جاتی ہیں. نہیں معلوم لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں, کونسے موضوعات ہیں جو اس تحریک کو جلا بخش کر ہم سبکو اشرف المخلوقات کے مقام سے نیچے دھکیل دیتے ہیں. پتہ نہیں ہم کب سمجھیں گے کے حسینیت عمل کا نام ہے اور یزیدیت بھی ایک عمل.  حسینیت وہ عمل ہے جس نے حق و باطل کو جدا کیا, وہ عمل جس نے عشق کو مقام عبادت سے نوازہ, وہ عمل جس نے بتایا کے انسانیت اور اصول انسانیت سب سے افضل ہیں.

(جاری ہے)


تذکرہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا ہو اور دین کی تکمیل کا احساس نہ ہو کیسے ممکن ہے, اللہ پاک کے احکامات کی تعمیل دنیا میں اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اپنے بیٹے بھائی سپاہی سبکو اللہ کی راہ میں پیش کیا تا کہ صداقت و ایمان زندہ رہ سکیں. وہ جو حالات تھے وہ ظاہری تھے اصل مقصد انکے پیچھے کی حکمت کو سمجھنا تھا. وہ جنکے لیے حکم ربی ہے کے وہ جنت کے سردار ہیں دنیا کی چیزوں کی کیا جرأت کے انکی پہنچ سے دور رہ سکیں دریائے فرات بھی یقیناً تڑپ اٹھا ہوگا کے جب اسے اس کسوٹی پہ پرکھے جانے کی خبر ملی ہوگی.


وہ مٹی اس دن اپنے ہونے پہ بین کر رہی ہو گی کے کس مقصد کی تکمیل کا حصہ بننے جا رہی ہے مگر سب خاموش تھے کیونکہ سبکا امتحان تھا. ایسا امتحان جس کے لیے سبکی آنکھیں بھلے جتنی بھی نم ہوں دل غم کی شدت سے کراہ رہے ہوں خاموشیاں آہ و بقا کر رہی ہوں مگر لب خاموش تھے. عشق سجدے میں ہو گا شکر کے سجدے میں کہ اسکو زندگی ملنے والی تھی اسلام نازاں ہوگا کے وہ دین جسکو اللہ پاک نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ مکمل کیا آج امر ہونے والا تھا.
ایک کے بعد ایک شہادت ہو رہی تھی مگر کسی کے قدموں میں لغزش تھی نہ زبان میں لکنت, دل میں کوئی وسوسہ تھا نہ ہونٹوں پہ کوئی شکایت..کوئی دشمن کو گالی نہیں بس اپنے فرض کی ادائیگی کی کوشش تھی..

کبھی سوچا ہے حضرت حر کے بارے, اگر وہ اس وقت صرف باتوں پہ اکتفا کر لیتے, رو لیتے یا واپس مڑ جاتے تو کیا انکا مقام ایسا ہوتا؟ نہیں, انکا مقام انکے عمل سے ہے, باغی فوج کا سپاہی اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا بہادر شہید اپنے عمل سے بازی لے گیا آج بھی اسی عمل کی ضرورت ہے باتوں سے حسینیت نہیں ملتی حق کے لیے سر کٹوانا پڑتا ہے بتانا پڑتا ہے کہ اللہ پاک کا حکم ہی سب سے افضل ہے اسی حکم پہ جھکنے والے سر ہمیشہ انسانیت کا فخر بنتے ہیں.

حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنھما نے پہلا خطبہ اس وقت دیا جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہوئی وہ کوئی نوحہ نہیں تھا نہ کوئی گریہ زاری تھی انہوں نے ثابت کیا کہ انکا گھرانہ حکم الہی پہ سر جھکانا جانتا ہے اور انہوں نے اہل کوفہ کو وہ آئینہ دکھایا ہے کہ سب سر پیٹ کے رہ گئے اور کہنے لگے ہائے حسین ہائے حسین. یہ کربلا میں حیاتِ جاوداں پانے والوں کے عمل ہی تھے کے آج بھی ہم صدق دل سے مانتے ہیں کہ
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اپنی زندگی کو مقصد کی تکمیل کے لیے وقف کر دیں ایسا مقصد جو روح کی تسکین ہو جس پہ انسانیت نازاں ہو کہ جب ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو ہمیں پتہ ہو ہمیں کیا کرنا تھا اور ہم کیا کر کے آئے ہیں.

زندگی کا یہی نصب العین ہے حق کا دامن نہ چھوڑیں کیوں کہ
"جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے"...
سر سلامت رہے نہ رہے شان سلامت رہنی چاہیے... دستار کی حرمت برقرار تو سر ہزار....
اللہ ہم سبکو محرم کے مفہوم کو سمجھنے کی سعادت نصیب فرمائے. آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :