بچپن کا چودہ اگست‎‎

پیر 9 اگست 2021

Misbah Chaudhry

مصباح چوہدری

یہ بات ابھی چند سال پرانی ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں. اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی کمر کس لی جاتی تھی گھر کے سارے بچے اپنی جیب خرچی جوڑنا شروع کر دیتے تھے تاکہ چودہ اگست کو سب سے زیادہ جھنڈیاں انکے گھر لگی ہوں. اور دلہن کی طرح سجا گھر ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنا رہے. مقابلہ سخت اور وقت کم ہوتا تھا. تیرہ اگست کی شام جھنڈا جھنڈیاں گوند اور لیوی جو خود پکائی جاتی یا بنوائی جاتی کسی جنگی سازوسامان کی طرح مورچوں تک پہنچا دی جاتی تھی.

سارے بہن بھائی کزنز شام ہوتے ہی گھروں کی چھتوں پہ ڈیک اور بیفلیں لگانا شروع کر دیتے تھے.

(جاری ہے)

اور ساری رات ان پہ چلنے والے ملی نغمے خون کو گرماتے اور بچے بڑے سب بڑی جانفشانی سے گھر اور گلی سجانے میں مصروف رہتے تھے. ایک عجیب سی کیفیت ہوتی تھی سب جانتے تھے کہ صبح بارش ہوسکتی ہے جس سے انکی ساری محنت پہ پانی پھر جائے گا مگر ایک جنون تھا جو کسی طور کم نہ ہوتا تھا.

صبح کی ہلکی اور تیز بارش میں گرنے والی جھنڈیوں کو نہ صرف اٹھایا جاتا بلکہ انہیں چوم کے آنکھوں سے لگانا بھی محبت کا ایک اہم جز تصور کیا جاتا تھا. اس جوش کی وجہ شاید وہ داستانیں تھیں جو دادی, دادا, نانی اور نانا بھیگی پلکوں سنایا کرتے تھے. مجھے یاد ہے میری دادی جان کے سب سے بڑے بھائی جب کبھی اپنا کرتا اتارتے یا انہوں نے سر منڈوایا ہوتا تو زخموں کے نشان بڑے واضح ہوتے تھے.

انکے جسم سے ٹکرانے والی تلواروں اور نتیجے میں بہنے والے خون کا تصور ہم میں ایک نئی روح پھونکتا تھا. مٹی سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ چوٹ کھانے پہ سب سے پہلا مرہم مٹی کا لگایا جاتا تھا اور مانا جاتا تھا کے مٹی میں پانی ملائیں تو گارا بنتا ہے جس سے برتن بنتے ہیں مگر اُسی مٹی میں اگرخون ملایا جائے تو جنون بنتا ہے جس سے وطن کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور ہجوم قوم کا روپ دھار لیتا ہے.

یہی وجہ ہے کہ وطن کی محبت میں سرشار ملی نغمے دل کے تار چھیڑتے تھے اور آنکھیں ساون کی جھڑی لگا لیتی تھیں. ننھال ددھال کے لٹنے کی داستانیں خاندان کے کئی معصوموں کی جانیں زمین پہ چلنا محال کر دیتی تھی یوں گمان ہوتا تھا کہ جیسے ہر اگلا قدم اللہ کے دین کی خاطر مملکت خداداد کے لیے جان دینے والے کسی مسافر کی گردن پہ جا پڑا ہو. ہر طرف بکھری لاشیں وطن کی اہمیت اور بڑھا دیتی تھیں.

گھر سے بے گھر کرنے والوں عصمتیں لوٹنے والوں سے نفرت ہونے لگتی تھی شاید تب ہم اتنے ڈپلومیٹ نہیں تھے اس لیے سوچا کرتے تھے ان ہندووں اور سکھوں سے بدلا لینے کا جنہوں نے ہمارے بڑوں کے گھر جلائے تھے انکو کاٹ کاٹ پھینکا تھا. ناں ہم لبرل تھے نہ پڑھے لکھے مگر بڑے خالص تھے. شاید تب ہمارے پاس وقت بہت تھا اور اظہار کا طریقہ صرف ایک اپنا گھر سجانا.

شاید ٹویٹر, فیس بک, وٹس ایپ, سنیپ چیٹ, انسٹا گرام وغیرہ کی سہولت موجود ہوتی تو ہیش ٹیگ اور سٹیٹس اپ ڈیٹ سے ہم ہمارے فرائض منصبی سے آذاد ہو جاتے مگر تب محنت کر کے دکھانا پڑتی تھی. میں سوچتی ہوں کہ اگر یہ سب 1947 میں بھی ہوتا تو پاکستان بنانے کے لیے پاکستان لکھ کر 1947 پہ میسج سینڈ کرنا پڑتا اور ملک بنانے کے لیے چندہ دینے کی اناؤنسمنٹ نگارے بجا کے کی جاتی.

پب جی کے ہیرو اور اسلحہ لیا جاتا. ٹویٹر پہ ہیش ٹیگ جناح کا ساتھ دیں یا بن کے رہیگا پاکستان چلایا جاتا فیس بک پہ پیج بنتے جہاں سکھ اور ہندو ماں بہن کی گالیاں دیتے اور مسلمان جوابی کاروائی میں خاندان کی باقی عورتوں کو بھی شامل کر لیتے. شکر ہے یہ تمام ایپس نہیں تھی اور پاکستان تب ہی بن گیا. ورنہ شاید کبھی نہ بن پاتا. کیونکہ ملک عمل سے بنتے ہیں. جیسے آج چائنا نے عمل کیا اور ترقی کی منازل طے کیں ہم نے بس لفظ پھینکے وہ بھی نشانے پہ نہیں لگے.
دعا ہے اس مملکت خداداد کا ہر باسی اب عملاً اسکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے. آمین
ماہ آزادی مبارک

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :