تعلیمی ادارے اور طلبہ‎‎

جمعہ 1 اکتوبر 2021

Misbah Chaudhry

مصباح چوہدری

کسی بھی معاشرے میں تعلیم وہ بنیادی ستون ہے جو افراد کی تربیت میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے. حسن سلوک ہو یا روحانی بالیدگی علم کے بغیر نامکمل ہے. وبا کے دنوں میں بندش کے بعد درسگاہوں کا کھلنا ایک خوش آئند قدم ہے. مگر بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی فیسوں اور کچھ دوسرے اخراجات نے ملک کی صفحہ اول کی جامعہ کے طلباء سے خوش ہونے کا حق بھی چھین لیا.

فیسوں کی مد میں دوگنا سے تین گنا اضافہ غریب طلباء کے لیے درسگاہ کے دروازوں پہ قفل لگانے کے مترادف ہے.

(جاری ہے)

گزشتہ برس چند نامور اداروں نے یہ اضافہ کیا تھا, ادارے بند ہونے کی وجہ سے طلبہ اپنا موقف دینے سے قاصر رہے تھے اور اب جبکہ جامعات کھول دی گئی ہیں تو طلبہ کو اپنے حق میں آواز بلند کرنے کا مناسب موقعہ بھی مل گیا ہے.
ان حالات میں جب دنیا معاشی بحران کا شکار ہے جہاں مہنگائی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگ رہی ہے بیروزگاری عروج پہ ہے.

لوگوں کو کھانے کے لالے پڑے ہیں ایسے میں فیسوں کی شرح میں ہونے والا اندھا دھند اضافہ یقیناً اہل علم پہ "لٹل بوائے" کی طرح وارد ہوا اسکی تابکاری کا نتیجہ ہے کہ جامعہ کھلتے ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور تعلیمی سرگرمیاں ایک بار پھر سے معطل ہوکے رہ گئیں.
احتجاج طلبہ کا بنیادی حق ہے. مگر اس حق سے محروم کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں.طلبہ اور انتظامیہ کی لڑائی میں نقصان یقیناً سرکاری مشینری, گارڈز اور ہٹس پہ کام کرنے والے مزدور طبقے کا ہو رہا ہے.

اگر ادارے اپنی غنڈہ گردی اسی طرح جاری رکھیں گے اور فیسوں کی مد میں اضافے سے ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تعلیم سے محروم کرتے جائیں گے تو قائد کا روشن پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا.
حکومت سے گزارش ہے کہ جن اداروں نے تاوان کی صورت فیسوں میں اضافہ کیا ہے ان سے مشاورت کرتے ہوئے فیس کم کی جائے, ان کو درپیش مسائل کا تدارک کرتے ہوئے تعلیمی سرگرمیاں بحال کی جائیں تا کہ طلبہ اس ذہنی خلجان سے نکلیں اور اپنی تعلیم پہ توجہ دیتے ہوئے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں..

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :