لاک ڈاون نرم، کرونا سرگرم

منگل 2 جون 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

کرونا کا جن پوری طرح سے بے قابو ہو گیا ہے۔ مئی کا مہینہ خطرناک ترین ثابت ہوا۔اس تلخ حقیقت کو جلد سے جلد تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمیں اب اس مہلک بیماری کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا۔ دوسری بیماریوں کی طرح یہ وائرس بھی اب ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔ کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں ہوش روبہ اضافہ ہوگیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس ناگہانی آفت کا شکار ہو رہے ہیں۔

پچھلے تین روز کے درمیان اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے جو کے ایک طرح سے ہم سب کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
ڈھائی ماہ کے لاک ڈاون کے بعد عید پر حکومت کی جانب سے نرمی کا فیصلہ کیا گیا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شاپنگ کی غرض سے مارکیٹوں کا رخ کیا۔ حکومت نے جن ایس او پیز کے ساتھ مشروط اجازت دی تھی وہ تمام احتیاطی تدابیر کی عوام نے نفی کر دی۔

(جاری ہے)

بازاروں میں ایسی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ کرونا کا بھی دم نکل جائے۔ لوگ سماجی فاصلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر ماسک کے بازاروں میں امڈ آئے۔ حکومت کی جانب سے بازاروں کے اوقات کار مقرر کر دیئے گئے۔صبح نو بجے سے لے کر رات دس بجے تک تمام دوکانیں کھلی رہیں گئی۔
عید تو گزر گئی مگر ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ کیا لاک ڈاون ہوگا یا نہیں؟ حکومت لاک ڈاون کی معیاد بڑھائے گئی؟ اگر اضافہ ہوا تو کاروبار کے اوقات کار کیا ہوں گئے؟ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں میں ہوتا ہے جہاں زیادہ تر طبقہ دیہاڑی دار ہے۔

پاکستان کی معشیت پہلے ہی بہت سی مشکلات میں گہری ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ مزید لاک ڈاون کی متحمل نہیں ہو سکتی۔لاک ڈاون کی وجہ سے جدھر معشیت پر برا اثر پڑا وہیں ساتھ ساتھ ٹیکس کولیکشن بھی بری طرح متاثر ہوئی۔پاکستانی معشیت اس چیز کی متحمل نہیں کہ لوگوں کو مذید رقم دی جا سکے۔امیر طبقہ تو پوری طرح لاک ڈاون کے حق میں ہے مگر غریب اور دھاڑی دار طبقہ میں مذید لاک ڈاون کو برداشت کرنے کی سکت نہیں۔

کرونا کی صورتحال کے پیش نظر قومی رابطہ کمیٹی کی ایک اہم بیٹھک وزیر اعظم کی صدارت ہوئی۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں مزید لاک ڈاون نہیں کیا جائے گا۔ مارکیٹوں کو تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ مخصوص اوقات میں کھولنے کا حکم دیا گیا۔ ہفتہ کے پانچ دن صبح نو بجے سے لے کر شام سات بجے تک تمام ایس او پیز کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں جارہی رکھنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کے شعبہ کو بھی احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کی مشروط اجازت دی گئی۔ وزیراعظم کی جانب سے تمام اوورسیز پاکستانیوں کو بھی جلد سے جلد واپس لانے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ تمام فیصلہ پاکستان کے غریب طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے گئے۔
پاکستان میں ایک ایسے طبقے کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو کرونا وائرس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صرف لاہور شہر میں اس وائرس سے مشتبہ افراد کی تعداد تقریبا سات لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روز بروز اموات کی تعداد ہمیں اس خطرناک وائرس کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ پاکستان طب کے شعبہ میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں اس وائرس کے ٹیسٹوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ جان لیوا بیماری خطرناک حد تک پھیل رہی ہے۔

حکومت اس کی روک تھام کے لیے دن رات کوشاں ہے مگر اس کے ساتھ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہمیں بھی اس بیماری سے بچاو کے لیے احتیاطی تدابیر کو اپنانا ہو گا۔ مشکل کے اس وقت سے ہمیں ایک قوم بن کر اس سے لڑنا نہیں بچنا ہو گا۔ ہمیں تمام ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بناتے ہوئے ماسک کے استعمال کو عادت بنانا ہو گا۔ کیونکہ اس مہلک بیماری کی ویکسین تا حال نہ ہونے کی وجہ سے اس خطرناک جان لیوا مرض سے بچاو کا واحد راستہ احتیاط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :