
عدم برداشت کی وجوہات و نتائج
منگل 10 اگست 2021

محمد برہان الحق جلالی
(جاری ہے)
اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسرے کے گریبان کو پکڑنے اس کو تارتار کرنے میں مگن رہتا ہے اس طرح وہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بجائے بگاڑنے کا موجب بنتا ہے۔
یہی گمبھیر ناگفتہ بہ صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس تیزی سے فروغ پارہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ لوگوں میں قوت برداشت نہیں، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد پہ اتر آتے ہیں ۔ متشدد واقعات اکثریت میں دیکھنے میں آرہے ہیں، اگرسوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز بہت تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔ چند روز پہلے ایک چھوٹی سی بچی کو چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر خاتون نے جس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایاگیا، اسی طرح ایک شہر میں ایک آدمی بازار کے بیچوں و بیچ تقریبا دو سو افراد نے تشدد کا نشانہ بنایاچاہے اس نے کوئی جرم کیا یا نہ کیا یہ کام اداروں کا ہے کہ وہ تخقیقات کریں۔
معاشرہ اس وقت زمانہ عدم برداشت اور سیاسی و معاشرتی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا جا رہا ہے لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت نہیں ہے رویوں میں شدت پسندانہ رویہ اور عدم برداشت اس حد تک غالب آچکے ہیں کہ ہمارے رویوں اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کے باعث احترام آدمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوا کرتے تھے لوگ ایک دوسرے کی بات کو تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے‘ حسن ادب کے ساتھ اختلاف رائے بھی کرتے لیکن انسانوں کے عزت و احترام کو کبھی بھی اپنے رویوں اور اخلاقی اقدار کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کھونے نہیں دیاجاتا تھا۔
اب جو موجودہ صورتحال ماضی کےبالکل بر عکس ہے ۔اگر ہم عدم برداشت کی وجوہات کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس سےاخلاقی ’معاشی اور سماجی مسائل عدم برداشت کو جنم دے رہے ہیں ہر معاشرے میں مختلف مزاج کے حامل لوگ بستے ہیں کچھ لوگ جذباتی اور کچھ قدرے معتدل مزاج کے ہوتے ہیں بعض افراد فطرتا انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غم وغصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل ترین صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہے۔
جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے اندر موجود رواداری کو بھی اپنے منفی رویہ سے ختم کردے اور نتیجتا اس طرح عدم برداشت کا وائرس چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کے ساتھ لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جابجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔
مذکورہ بالا واقعات ہمارے سماجی رویوں میں در آئی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھرپور عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بلاشبہ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ ہمارے مہذب لوگ ان تمام واقعات پر صحےح، غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت بخوبی رکھتے ہیں اور غلط کو نہ صرف غلط کہتے بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب وہ خود کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرپاتے ۔ یہ معاشرتی دوعملی کیوں؟ یہ سوال، جواب کا متقاضی ہے۔
ہر معاشرے میں بسنے والے ارکان الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض افراد فطرتا انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔
شاید ہی کوئی دن ایساہو، جب آپ روڈ پر سفر کریں دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں۔ ہر آدمی ٹریفک کےقوانین ایک طرف پر رکھ کر آگے نکلنے کی کوشش میں نظر آئے گا دوسرے کو جگہ دینا گوارا نہیں کرے گا تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹریفک جام ہو جاتی ہے ہر کوئی غصہ میں نظر آتا ہے ایک دوسرے کو گھور کر دیکھنا آستینیں چڑھانا معمول بن گیا ہے۔
عدم برداشت کی ایک وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے اگر فوری انصاف ہو فوری سزائیں ہوں تو شاید ایسے واقعات میں کچھ کمی آ جائے۔ مشتعل ہجوم پر اگر فوری طور پر قابو پا لیا جائے یا معاشرے کے زندہ انسانوں میں کسی کا ضمیر زندہ ہو تو شاید ان واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے پرتشد د واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اس کو نشان عبرت بنایا جائے معمولی جرائم میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کر نے کی بجائے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اگر مشورہ ہی ہجوم میں سے کوئی دے دے تو بھی پڑھے لکھے مشتعل ہجوم سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ایک معاشرے میں بےحسی اور تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اس معاشرے میں انصاف کا حصول ناممکن، تشدد، عدم برداشت اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فرسٹریشنز بڑھ جایں تو قتل جیسے جرائم مرتکب ہوتے ہیں۔
اگرواقعہ شعب ابی طالب کا جائزہ لیں تو یہ سارا واقعہ صبر و تحمل اور برداشت کا نمونہ ہے اگر ہم خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیں تو اس میں بردباری و برداشت کا عملی نمونہ ہے محسن انسانیت، قائد تمدن، امن عالم کے نقیب اعظم حضرت محمد ﷺکی تعلیمات اور اسوہ حسنہ وہ واحد منبع ہے جس سے عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کی زندگی اور انسانی معاشرے کی سعادت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ آپ ﷺ کی ذات بابرکات پر بے شمار درود و سلام ہوں۔ آپ ﷺنے اپنے تحمل و بردباری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن وامان کا خطہ بنادیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات عالیہ اور لائے ہوئے نظام میں دنیا کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔ اسی پر چل کر ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں امن عالم تقریبا بالکل مفقود ہوچکا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ، ایثاروقربانی اور تحمل وبرداشت کے جذبے مجروح ہورہے ہیں۔فلسطین، بوسنیا، لبنان، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی ہو یافرقہ واریت یا اسلحہ کا مقابلہ سب عدم برداشت کی ہی قبیح ترین شکلیں ہیں۔ قومی سطح پراور بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا رجحان لاقانونیت اور انارکی کا سبب بنتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی عسکری مداخلت وبربریت اور عدم برداشت کی شکل ہے۔ عدم برداشت کے اس رجحان کو ہم تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔
اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں،دینی تعلیمات سے ہمیں بلاتفریق وامتیاز احترام انسانیت کادرس ملتاہے۔ اسلامی معاشرے میں امن و امان کے قیام، ملک ومملکت کے استحکام اور پر امن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و برد باری، رواداری اوراعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے۔معاشرے سے غربت، جہالت، بے روزگاری اور لا قانونیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے اسوہ نبویﷺ کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد برہان الحق جلالی کے کالمز
-
شان سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں
جمعرات 13 جنوری 2022
-
سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو
بدھ 20 اکتوبر 2021
-
آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پیر 11 اکتوبر 2021
-
ماں کی دعا
منگل 5 اکتوبر 2021
-
اخلاقیات
بدھ 29 ستمبر 2021
-
حضرت داتاعلی ہجویری رحمہ اللہ کی تعلیمات
ہفتہ 25 ستمبر 2021
-
استاد ایک عظیم ہستی
پیر 20 ستمبر 2021
-
سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو
منگل 14 ستمبر 2021
محمد برہان الحق جلالی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.