اٹھارویں ترمیم اور سینئر ججز کی سلیکشن کا طریقہ کار

جمعہ 15 مئی 2020

Mohammad Hanif Abdul Aziz

محمد حنیف عبدالعزیز

 جنرل پرویز مشرف نے انیس سو نناوے میں حکومت سمبھالنے کے بعدسے دوہزار سات تک آٹھ چیف جسٹس تبدیل کر دیے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا آخر میں چوہدری محمدافتخا ر کی باری آئی تو اس نے مستعفی ہو نے سے انکار کردیا چوہدری محمد افتخارسے استعفیٰ لینے کی وجہ اس وقت کے کچھ اہم کیسز تھے جو سپریم کورٹ میں چل رہے تھے ان میں مسسنگ پرسن کیس ، سٹیل مل پرواٹائزکیس اور اسلام آباد میں چلڈرن پارک میں گاف کورس بنانے کاکیس اہم تھے ۔

 
چوہدری محمد افتخار کی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک ناخوشگوار ملاقات ہوئی ملاقات کے دوران ان کو یہ کیسز پینڈنگ کر نے کو کہا گیا چوہدری محمد افتخار نے ایسا کر نے سے انکا کر دیا ۔ اس کے بعد نو مارچ دوہزار سات میں چوہدری محمد افتخا رکو آرمی ہیڈ کواٹر بلایا گیا اسے مستعفی ہونے کا کہا گیااور اسے بتایا گیا کہ ایک اور سینیئر جج جاوید اقبال کو چیف جسٹس بنا دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

چوہدری محمد افتخار کے انکار پر اسے ہاؤس ریسٹ کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے باقی ججوں کو بھی ہاؤ س ر یسٹ کردیا۔ چوہدری محمد افتخار نے عدلیہ بچاؤ تحریک چلانے کا علان کر دیا ۔ اس تحریک کی سب سے بڑی مین پاوروکلا تھے اور دوسری مسلم لیگ نون کی قیادت تھی اس سارے معاملے میں جنرل مشرف نے وردی اتا ر دی اورآٹھارہ فروری دوہزار آٹھ میں الیکشن کا علان کر دیاالیکشن کمپین کے دوران ستائیس دسمبر دوہزار سات میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو صا حبہ راولپنڈی میں لیاقت باغ میں جلسے کے بعد ایک بم بلاسٹ میں شہید ہو گئیں اس دن پاکستان میں بہت ہنگامے اٹھے کھڑے ہوئے اور پیپلز پاٹی معصوم ہو گئی اور الیکشن جیت گئی ، آصف علی زرداری صاحب پاکستان کے صدر بن گئے اب جنرل مشرف صاحب جا چکے تھے ۔

جن لوگوں نے عدلیہ بچاؤ تحریک میں حصہ ڈالا تھا اسے سود سمیت وصول کر نے کاوقت آگیا تھا ۔ نواز شریف دو دفعہ وزیر اعظم رہ چکے تھے انہیں تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت تھی ۔ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج بننے کے لئے سول سروس کا امتحان پاس کر کے پہلے عام جج بھرتی ہو تا تھا پھر ترقی کر تے کرتے اوپر جا تا تھا اس وجہ سے کچھ سیاسی وکلا چاہتے تھے وہ بغیر امتحان دیے سیاسی جج بن جائیں ۔

چند بڑے سیاست دان چاہتے تھے کہ صدر کے پاس اسمبلی توڑنے کا اختیا نہیں ہو نا چاہیے ، چیف جسٹس یا سنیئر جج کا تقرر بھی وزیر اعظم کرے ان سب کے لئے آٹھارویں ترامیم لائی گئی۔ 
آٹھارویں ترمیم میں ایک سو سے زیادہ آرٹیکل کو تبدیل کیا گیا،آرٹیکل نمبر1,6,10,17,19 ,25,27,29,38,41,46,48,51,58,62,63,70,71,75,89,90,91,92 ,99,100,101,104,105,112,116,122,129,130,131,132 ,139,
140,141,142,143,144,147,149,153,154,155,156,157,160,167,168,
170,171,172,175,177,193,194,198,199,200,203,215,216,218,
219,223,224,226,228,232,233,234,242,243,246,260,267,268,269
اور 270 کو تبدیل کیا گیا۔

آٹھارویں ترمیم اصل میں جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں اور جنرل پرویز مشرف کی سترہویں ترامیم کا متبادل تھی ۔بڑی اور خاص تبدیلیاں یہ تھیں : 
۱۔صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھ دیا گیا
 ۲۔دو صوبوں کے نام کے ہجے تبدیل کیے گئے Baluchistan سےBlochestanاورsindسےsindhکیا گیا۔
 ۳۔آٹیکل ۶ کو آٹیکل ۶(۲) میں تبدیل کیا گیا جس کے تحت قانون کے ساتھ چھڑ چھاڑ کر نے والے کو غدار کہا گیا ۔

۴۔ صدر کے اختیارات کو کم یا ختم کر دیا گیا ۔ 
۵۔ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز کی سلیکشن کے طریقے کا ر میں تبدیلی کی گئی اس کے تحت اب جوڈیشنل کمیشن کے علاوہ پارلیمانی کمیشن اور بار کے ممبر بھی شامل ہونگے صدر صرف منظوری دیں گے ۔ 
۶۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹسز کی کوا لیفیکیشن کے تحت پاکستان کی شہری ہوں۔پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصہ کے لئے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا جج رہا ہو یا پندرہ سال یا اس سے زیادہ عرصہ کے لئے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا وکیل رہا ہو یعنی بار کا ممبر رہا ہو۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :