
عدالتی نظام
پیر 15 جون 2020

محمد حنیف عبدالعزیز
(جاری ہے)
پاکستان میں نظام عدل بہت ہی نا قص ہے۔ غریب آدمی کے بس سے تو بالکل با ہر ہے ۔ کمزور آدمی خواہ وہ مالی طور پر یا ذہنی طور پر کمزور ہو اسے انصاف نہیں ملتا مجھے ایک دفعہ عدالت جانے کا اتفاق ہوا مجھے اطلاع ہی نہیں دی گئی اور میرے خلاف ڈگری ہو گئی جب ڈگری ہو گئی تو مجھے بذ ریعہ ڈاک اطلاع دی گئی میں عدالت پہنچاوکیل کیا اور عدالت میں درخواست دی کہ مجھے اطلاع نہیں ملی لہٰذا مجھے صفائی کا موقع دیا جائے اس پر چھ ماہ لگ گئے اس کے بعد مجھے صفائی کا موقع دیا گیا تو وکیل صاحب نے فرمایا کہ جو کیس دائر کیا تھا وہ مکمل ہو گیا اب نیا کیس دائر کرنا ہے اس لئے فیس بھی دوبارہ ادا کرنی ہو گی۔ فیس دوبارہ دی گئی اور مقدمہ درج ہو گیا وہ بھی آٹھ ماہ بعد ختم ہوا اسطرح تقریبا 15سے 18 ماہ چھوٹے سے مقدمہ میں لگے ۔ عدالت میں ریڈر پچاس روپے لے کرنئی تاریخ دے دیتا ہے جبکہ مخالف عدالت کے باہر کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ عدالت میں 100 روپے میں گواہ مل جاتا ہے جبکہ جج صاحب کو اس بات کا پتہ ہوتا ہے کہ یہ کرائے کا گواہ ہے ہر روز کسی نہ کسی مقدمہ میں گواہی دے رہا ہوتا ہے ۔عدالت میں کاغذات کی تصدیق کا نظام بھی درست نہیں اوتھ کمشنر صاحب بیس روپے لیتے ہیں ان سے جو مرضی تصدیق کروا لیں بے شک کسی چیز کا وجود تک نہ ہو وہ تصدیق کر دیتے ہیں ان کی کوئی پڑتال نہیں ہوتی جبکہ اگر کوئی سرکاری آفیسر غلط تصدیق کر دے اور پتہ چل جائے تو اس کو نوکری تک سے نکال دیا جاتا ہے ۔ جب کوئی عدالت میں مقدمہ دائر کرواتا ہے وکیل کی پوری کوشش ہو تی ہے کہ مخالف فریق کومقدمہ کا پتہ نہ چل سکے اور جلد ازجلد مخالف کے خلاف ڈگری ہو جائے اور اپنے موئعقل کو اپنی کامیابی کا یقین دلا سکے اور اپنی فیس مکمل کر سکے ۔
ویسے تو جہانگیربادشاہ کی زنجیر عدل کی طرح پنجاب میں بھی عدل کی زنجیر موجود ہے ، خادم اعلیٰ پنجاب نےCM COMPLAIN CELL قائم کیا ہے میں نے اس سیل میں ایک کمپلین درج کر وائی جب دو ماہ تک کوئی جواب نہ آیا تو ووبارہ یاد کروایا لیکن جواب نہ آیا پھر یاد کروایا اس کے ایک ماہ بعد ڈی سی او صاحب کی طرف سے پٹواری صاحب گھر پر تشریف لائے اور معلومات لے کر چلے گئے اس کے 15دن بعد DSPصاحب کے آفس سے فون آیا کہ کل آ پ کی ڈی ایس پی صاحب کی پیشی ہے میں اگلے دن مقررہ وقت پر پہنچا پتہ چلا کہ میرا مخا لف پہلے ہو کر چلاگیا ہے اور مجھے کہا گیا کہ یہ کیس عدالت کا ہے اس لئے عدالت سے رجوع کریں اور میری درخواست دفتر داخل کر دی گئی ۔ عدالتی نظام میں بے شمار خامیاں ہیں جن کو درست کر نے کی ضرورت ہے ۔
1 ۔عدالتی نظام خالص اردو میں ہو نا چاہیے باقی کام تو اردو میں ہیں مگر جج صاحب فیصلہ انگلش میں لکھتے ہیں جسے صرف وکیل صاحب ہی پڑھ سکتے ہیں یہ بھی اردو میں ہو نا چاہیے ۔
2۔ عدالت میں وکیل کا عمل دخل کم سے کم ہو نا چاہیے مدعی اور مدعلیہ دونوں کو سلیس زبان میں اپنامدع بیان کر نا چاہیے ۔
3۔جب کوئی مقدمہ دائر کرے اسے مکمل ثبوت کے ساتھ کیس جمع کرواناچاہیے ۔ اور جب مدمقابل کو سمن جائیں اس میں مکمل تفصیل ہو نی چاہیے اس کا فون نمبرتک درج ہونا چاہیے ۔عدالت کو سمن کے ساتھ فون پر بھی بات کرنی چاہیے۔
اسٹام پیپر کومکمل کئے بغیرتصدیق نہیں کرنا چاہیے تصدیق کر نے والے کو پابند ہو نا چاہیے کہ وہ ثبوت دیکھ کر تصدیق کرے ۔ جس طرح باقی کاغذات کی تصدیق کرنے والے ذمہ دار ہو تے ہیں اوتھ کمیشنر کو بھی ذمہ داری لینی چاہیے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد حنیف عبدالعزیز کے کالمز
-
ہمارے سرکاری ادارے ۔ حصہ دوئم
منگل 7 ستمبر 2021
-
قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ اور ان پر سوالات وجوابات
منگل 29 جون 2021
-
دھوکا
جمعہ 26 فروری 2021
-
کشمیراور پاک وہند
بدھ 24 فروری 2021
-
کشمیر اور ہندوستان کا دوہرا قانون
پیر 28 دسمبر 2020
-
سانحہ 16 دسمبر1971
ہفتہ 19 دسمبر 2020
-
کشمیراور پا ک وہند
جمعہ 11 دسمبر 2020
-
واقعہ فیل
منگل 8 دسمبر 2020
محمد حنیف عبدالعزیز کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.