اللہ ہدایت دے

جمعہ 24 اپریل 2020

Mohammad Saleem Khalid

محمد سلیم خالد

جب سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیاہے اس وقت سے ہر ملک تین مختلف محاذوں پر جنگ لڑرہاہے جس میں فرسٹ کوروناوائرس، سیکنڈ معاشی محاذاور لاسٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں محصور عوام کو ریسکیوکرنے جیسی بھاری ذمہ داری شامل ہیں ترقی یافتہ ممالک موجودہ صورتحال سے کچھ عرصہ بعد اپنے بے بہا وسائل کی بدولت دوبارہ اپنے پاوّں کھڑا ہوجائے مگر پاکستان جیسے ممالک کو بے پناہ مسائل کاسامنا کرناپڑے گا کیونکہ یہ ممالک پہلے ہی غیر ملکی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ایسے میں کورونا وائرس کی وجہ سے ان ممالک کامعاشی ڈھانچہ زمین بوس ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے آئی ایم ایف ،ورلڈبینک اور اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان اور دیگر ممالک کو مالی امداد کے علاوہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگی میں نرمی کے اعلانات سے زمین پر گرنے والی معاشیات کو وقتی سنبھالا مل چکاہے مگر ترقی پذیر ممالک نے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے اپنے تمام وسائل جھونک رکھے ہیں تاکہ کم سے کم انسانی جانوں کا نقصان ہوسکے پاکستان میں موجودہ حکومت نے دیگر صوبائی حکومتوں کے ساتھ عوامی جانوں کے تحفظ کیلئے ہر طرح سے سرگرم ہے ہرروز انسانی زندگیاں بچانے کیلئے مختلف منصوبے بنائے جارہے ہیں چاہے طبی سازوسامان کی فراہمی کامعاملہ ہویاپھر ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف کی دستیابی ہو ہر ممکن کوشش ہوتی نطر آتی ہے اسی طرح معاشی ماہرین بھی وزیر اعظم کی رہنمائی میں اقتصادی صورتحال پر اپناکنٹرول برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ناگہانی وباء کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باوجود حکومت پاکستان نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشان حال عوام کی دادرسی کیلئے احساس ریلیف پروگرام کااجراء کیا اور اس کیلئے کئی ارب روپے مختص کئے گئے اور اس پروگرام میں شمولیت اور اندراج کیلئے موبائل فون کے ذریعے SMSاور آن لائن درخواستیں وصول کی گئیں تاکہ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے کروڑوں افراد میں سے مستحق افراد حصہ لے کر اپنے عزیزواقارب کی مشکلات پر قابوپاسکے اسی طرح کئی ارب روپے مالیت سے راشن فراہمی کامنصوبہ بھی شروع کیاگیامگر فسوس صدافسوس اس بار بھی ماضی کی طرح غیر مستحق لوگ ان سکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظرآرہے ہیں جبکہ مستحق اور غریب افراد آج بھی ذلیل وخوار ہوتے نظر آرہے ہیں ماضی میں جب بھی زلزلہ ،سیلاب یاپھر کوئی بھی ناگہانی صورتحال پیدا ہوئی توامدادی رقوم اور سامان وصول کرنے والوں میں سینکڑوں کی تعداد میں غیر مستحق اور پروفیشنل قسم کے لوگ سرفہرست کھڑے نظر آتے رہے ہیں گزشتہ دنوں ضلع لودہراں کارہائشی ایک شخص جواپنے علاقے کانمبردار ہے وہ احساس پروگرام سے 12000/=روپے وصول کررہاتھااسی طرح تحصیل کہروڑپکا کی یونین کونسل میں وائس چےئرمین کاالیکشن لڑنے والابھی لائن میں لگ کر 12000/=روپے لے رہاتھا اگر عوام کی بات کریں تو احساس ریلیف کیمپوں کے اندر اور باہر کے علاوہ مختلف سڑکوں پر لگی ATM مشینوں کے سامنے کھڑے مردوخواتین کی کثیر تعداد کے مناظر دیکھ کر افسوس ہوتاہے اور سوال ابھرتاہے کیا ہم مسلمان ہیں ؟کیاہم جوکچھ کررہے ہیں وہ درست ہے ؟
کیونکہ ان کیمپوں کے مناظر دیکھنے کے بعد محسوس ہوتاہے کہ ہم چند روپوں کی خاطرحلال وحرام ،درست اور غلط کی تمیز کئے بغیر تمام حدیں کراس کرچکے ہیں ان کیمپوں میں آنے والی اکثر خواتین اپنے گھر کے کسی بھی مرد (خاوند ،بیٹا،بھائی ) کے ہمراہ آتی ہیں ان میں سے اکثر قیمتی طلائی زیورات پہنے ہوتی ہیں جبکہ باہر کھڑے مردوں کے پاس مختلف قسم کے قیمتی موٹر سائیکلیں بھی موجود ہوتی ہیں جو کسی طر ح بھی غریبوں والی لسٹ سے مطابقت نہیں رکھتے جبکہ غریب عوام کی اکثریت آج بھی امدادی رقوم اور راشن کے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں موجودہ حکومت کی جانب سے شفافیت کے نعرے بھی مارے گئے مگر انھوں نے بھی سیاسی جماعتوں اور عوامی دباؤمیں آکر عجلت کامظاہرہ کرتے ہوئے سابقہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اکٹھا ہونے والا ڈیٹا استعمال کر تے ہوئے امدادی رقوم کااجراء شروع کردیاموجودہ حکومت کے اپنے کرائی گئی انکوائری میں لاکھوں افراد کی نشاندہی ہوئی جواس امدادی رقم حاصل کرنے کے اہل نہیں تھے اس ڈیٹا پر امدادی رقوم کی تقسیم نے اس کی شفافیت پر سوالیہ نشان پیداکردیا ہے پورے ملک میں گدھوں کی مانند بیٹھے ہوئے ان لوگوں نے ایک بار پھر مستحق ،نادار اور مجبور لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے انھیں فاقہ کشی اور خودکشیاں کرنے پر مجبور کردیاہے کیونکہ لاک ڈاؤن اور پابندیوں کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی کئی گنااضافہ ہوچکا ہے اگر ان پروفیشنل لٹیروں نے لوٹ مار کاسلسلہ ختم نہ کیاتو بھوک اور غربت کے ہاتھوں مجبور عوام ڈاکے اور قتل وغارت کرنے سے بھی گریز نہیں کرئے گی مستحقین اور بے کس لوگوں کے حق پر شب خون مارنے والوں خداکے خوف سے ڈروکیونکہ وہ وقت دور نہیں ہے جب تم سے لوگوں کامال کھانے اورحق تلفی کرنے پر پوچھاجائے گارب کریم نے بڑے واضح طور پر کہاہے کہ میں حقوق اللہ تومعاف کردونگامگرحقوق العباد ہرگز معاف نہیں کرونگااب بھی وقت ہے کہ ہم اللہ کریم کی جانب سے عطاکردہ ہدایت پر عمل کریں اور حق داروں کو اپناحق وصول کرنے دیں اور لوٹ مار والی زندگی سے توبہ تائب ہوجائیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :