معلّم کرب میں کیوں ؟

پیر 11 مئی 2020

Mohammad Saleem Khalid

محمد سلیم خالد

پاکستان کو وجود میں آئے اس وقت 73سال ہوچکے ہیں اس دوران متعدد حکمران اقتدار کی غلام گردشوں میں آتے رہے اور عوام کیلئے پالیسیاں بناتے رہے چاہے وہ پالیسی صحت کے حوالے سے ہویا پھر بچوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے ہو پالیسیاں ہی بنتی رہی مگر 73سال گزرنے کے باوجود عوام کی حالت نہ بدلنی تھی نہ بدلی گئی ملک میں فوجی حکومتوں کے علاوہ تواتر سے جمہوری حکومتیں بھی برسراقتدار آتی رہی ہیں ہر آنے والی حکومت نے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی طلع آزمائی جاری رکھی جو آج بھی جاری ہے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے حکمران قوم کو دیرپاتعلیمی سسٹم دینے سے قاصر نظر آرہاہے کیونکہ ملک میں جب بھی حکومتی عمل تبدیل ہوتاہے توآنے والی حکومت اپنی پالیسیاں نافذکرنے پر عمل پیرا ہوتی ہے اور سابقہ حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے منصوبے مختلف اعتراضات لگاکر ختم کردئیے جاتے ہیں 2007ء کے الیکشن کے بعدپنجاب میں مسلم لیگ ق کی حکومت بنی اور چوہدری پرویز الہیٰ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور انھوں نے دیگر شعبوں کی طرح ایجوکیشن سیکڑ میں بھی نمایاں تبدیلی لاتے ہوئے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کو ڈاکٹر اللہ بخش کی قیادت میں فعال ادارہ کے طور پر شروع کرتے ہوئے پنجاب بھر میں پرائیویٹ سیکڑ کی شراکت میں سکولوں کاجال پھیلادیا ان سکولوں نے پنجاب بھر میں حکومتی سپورٹ ملتے ہی سرکاری سکولوں کے مقابلے میں امتحانی ریکارڈ اپنے نام کرنے شروع کردئیے جس سے پورے صوبے میں ایک مقابلے کی فضاقائم ہوگئی اس دوران تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومتی تعاون سے اپنے پاوّں پر کھڑے ہوناشروع ہوگئے اور سکولز میں داخل ہونے والے بچوں کو بہترین ماحول میسر آنے کے علاوہ شرح خواندگی میں بھی نمایاں اضافہ ہوامسلم لیگ ق کی حکومت مدت پوری کرنے کے بعد ختم ہوگئی جس کے بعد میاں برادران کی شاہی حکومت آگئی اور اس میں رانامشہود وزیر تعلیم مقرر ہوئے انھوں نے آتے ہی اس پروگرام کو ق لیگی حکومت کاقرار دے کر مختلف انداز میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کردی کبھی فیسوں کی مد میں تنگ کیاگیاتوکبھی غیر ضروری انسپکشن کے نام پر سکول مالکان کوپریشان کیاگیاجس سے جہاں سکول مالکان پریشان ہوئے تووہیں ان سکولوں میں پڑھانے والے ہزاروں میل /فی میل اساتذہ بھی اذیت سے دوچار ہوتے نظرآئے۔

(جاری ہے)

ایک وقت تھا جب اساتذہ کو عزت واحترام کی نظروں سے دیکھا جاتاتھا کیونکہ یہ اساتذہ ہی ہوتے ہیں جوآنے والے مستقبل کو اپنی محنت اور جانفشانی سے اس قابل بناتے ہیں اس کے بدلے میں ہماری حکومتیں ان اساتذہ کے ساتھ بھی دیگر محکموں کے ملازمین کی طرح سلوک روا رکھے ہوئے ہے ۔
ایک بار معروف دانشوراشفاق احمد غیر ملکی یونیورسٹی میں اپنے دوست سے ملنے گئے اور جب وہ گیلری سے گزرنے لگے تو وہاں سے گزرنے والے طالبعلم اچھل اچھل کر گزر رہے تھے بعدازاں اشفاق احمد نے اپنے میزبان دوست سے حیرت کا اظہارکیا اوراسکی وجہ پوچھی میزبان نے بتایاکہ بچے احتراماً ہمارے سایوں کے اوپرسے جمپ کرکے گزررہے ہیں تاکہ بے ادبی نہ ہوسکے حقیقت ہے کہ ایسی قومیں جو اپنے اساتذہ کااس حد تک ادب کرتی ہیں وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں نااہل حکمرانوں نے ہمیشہ اساتذہ کو تختہ مشق بنائے رکھااور آج بھی مختلف اندازسے ٹارچر کئے ہوئے ہیں حکومتی ایوانوں اور سیکرٹری لیول کے افسران مسلسل پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن سے منسلک سکولز کوتنگ کرنے پر ڈٹی ہوئی ہے تاکہ پرائیویٹ سکولز مالکان ان منفی حربوں سے تنگ آکر اپنے معاہدے ختم کردیں ہمیشہ ہرحکومت نے تعلیم کے فروع کیلئے نعرے لگائے مثلاً،،پڑھے گاپنجاب توبڑھے گاپنجاب ،،کے علاوہ متعدد خوش نما نعرے لگائے گئے جو صرف نعرے ہی ثابت ہوئے ۔


 ن لیگی حکومت کے خاتمے کے بعد 25جولائی 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہر جانب سے یہی توقع کی جارہی تھی کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومت کے برعکس تعلیم کے فروغ کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرئے گی اور ملک سے ناخواندگی کے خاتمے کے لئے عملی طور پر بہتر رویہ اپناتے ہوئے سرکاری اداروں سمیت پرائیویٹ سیکڑ میں کام کرنے والے اداروں کو سہولیات فراہم کرئے گی مگر افسوس صد افسوس موجودہ پنجاب حکومت کے وزیرتعلیم ڈاکٹر مرادراس نے پیف پارٹنر سکولوں کو مسلم لیگ ن کے سکول گردانتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کے پہاڑکھڑے کردئیے اس وقت پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کے ریکارڈ کے مطابق تقریباً7500سو پرائیویٹ پیف سکولز میں 27لاکھ طلباء و طالبات مختلف کلاسوں میں زیر تعلیم ہیں جن میں سے تقریباً24لاکھ بچوں کی فیسیں پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں جبکہ تین لاکھ بچے بغیر گورنمنٹ فیس وصول کئے ان سکولوں میں داخل ہیں 12سال قبل پنجاب حکومت کی جانب سے 350/=روپے امدادی فیس کے ساتھ شروع ہونے والا پروگرام12سال گزرنے کے باوجود 550/=روپے پر رکاہواہے گزشتہ 6سال سے کس قسم کاکوئی انکریمنٹ نہیں لگا یاگیااسی طرح نئے سیشن کے دوران نئے داخلوں پر مکمل پابندی لگارکھی ہے پیف کی جانب سے فیسوں کاچیک لیٹ ملنابھی معمول بن چکاہے اور وجہ بتائے بھاری کٹوتیوں کاسلسلہ بھی جاری ہے پیف سکولز کو سختی سے پابند کیاگیاہے کہ وہ نئے داخل ہونے والے بچہ کا (ب) فارم لازمی جمع کروائیں جبکہ سرکاری سکولز اس پابندی سے مکمل آزاد ہیں ۔

آج پیف پارٹنر سکولز چلانے والے ان اداروں کو گزشتہ تین ماہ کی ادائیگی بقایاہے چیک کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سکول مالکان سمیت لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ اور دیگر سٹاف اذیت سے دوچار ہیں اور بری طرح مالی مشکلات میں گھیرے ہوئے ہیں اسی طرح حالیہ دنوں میں کوروناوائرس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے نیاتعلیمی سال 15جولائی سے شروع کرنے کااعلان کیاگیا ہے لیکن تاحال کتابیں مہیا نہیں کی گئی گزشتہ دنوں پنجاب بھر سے پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کی طرف سے اپنے جائز مطالبات کے حل کیلئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے آبائی گھر اور پنجاب اسمبلی کے باہراحتجاج بھی کیاگیا سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے احتجاجی مظاہرین کے مطالبات سننے کے بعد پانچ رکنی کمیٹی بنادی جو سارے معاملے کودیکھے گی ۔


حکومتی ارباب اختیار سے پوچھناتھاکیاایسے اقدامات کرکے تعلیم کافروغ عمل میں لایاجائے گاجہاں پر تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے سڑکوں پر ذلیل و خوار ہورہے ہیں وزیر اعظم عمران خان فوری اس سارے معاملے ایکشن لیں اور پنجاب کی موجود ہ حکومت کو کاغذی اورغیر سنجیدہ اقدامات سے گریزکرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کیلئے وہ پالیسیاں بنانے کی ہدایت جاری کریں تاکہ حقیقی معنوں میں شرح خواندگی کے اہداف حاصل کئے جاسکیں پنجاب سے جہالت کاخاتمہ باتوں سے ممکن نہیں ہوسکتابلکہ اس کیلئے گراس روٹ لیول پر فرینڈلی ماحول بنانے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :