ڈھول بجاؤ

جمعرات 28 مئی 2020

Mohammad Saleem Khalid

محمد سلیم خالد

بزرگوں سے ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہی کچھ چھوٹی کلاس سے لے کر ہائیر کلاسسز تک بچوں کوپڑھایاگیاکہ پاکستان کی معاشیات میں زراعت کا اہم اور کلیدی کردار ہے دنیاکے تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے ہمیشہ گزرتے وقت کے مطابق پالیسیاں بنائی کسی بھی ملک کاانحصار صرف زراعت نہیں ہے بلکہ کوئی ملک جہازسازی کی صنعت سے کمارہاہے تو کوئی اسلحہ سازی کے ذریعے کمارہاہے پاکستان کاہمیشہ سے زراعت کے شعبہ پرانحصار تھااور ہمیشہ رہے گا۔

کیونکہ ہماری معاشیات کا70%انحصار شعبہ زراعت پر ہے وہی زوبوں حالی کاشکار چلاآرہاہے ۔زراعت کے شعبے کو صنعت کادرجہ دینے کے اعلانات توکئے جاتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں موجود صنعت کار اور سرمایہ دار اپنے مفادات کوفوقیت دیتے ہیں زراعت کاشعبہ کل بھی مسائل کاشکار تھاآج بھی اس کی حالت نہیں بدلی جاسکی ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں اقتدار میں آنے والے حکمران خواہ وہ فوجی تھے یاعوامی ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوئے تھے سب نے عوام کی حالت زار کو تبدیل کرنے کے نعرے لگائے معاملات پالیسیوں تک محدود رہے ہمیشہ کسان اور کاشتکارکی قسمت بدلنے کیلئے بیوروکریسی نے حکمرانوں کو منصوبے بناکر دئیے جودرحقیقت منصوبے ہی ثابت ہوئے ہر سال اربوں روپے کے فنڈز کسانوں کے نام پر قومی خزانے سے جاری ہوتے ہیں لیکن 73سال گزرنے کے باوجودپریشان حال کسان خوشحال نہ ہوسکا حکومت کی جانب سے شروع کئے جانے والے منصوبوں سے ہمیشہ اقتدار میں موجود مخصوص طبقہ فیض یاب ہوتا رہاہے اور کاشتکار کیلئے بنائے گئے منصوبوں سے حقیقی کسان کو کوئی فائدہ نہ ہوسکا ۔


ُٓپاکستان کی سیاست پر طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی شریف فیملی نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ زراعت کوصنعت کادرجہ دینے اور کاشتکاروں کیلئے فلاحی منصوبے شروع کرنے کے دعوے کرتے ہوئے منصوبے شروع کئے لیکن پاکستانی قوم نے دیکھا کہ پورے پاکستان اور خصوصاًپنجاب بھر میں پولٹری ،ڈیری اور اسی طرح کی دیگر سکیمیں جوکسانوں کے نام پر شروع کی گئی لیکن ان سکیموں کے ذریعے سب سے زیادہ فائدہ شریف خاندان اور ان کے حواریوں کوہوا۔

کسان آج بھی اپنے مسائل میں بری طرح جکڑا ہواہے ہمیشہ ہمارے حکمرانوں نے اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کوبحالی اور خوشحالی کے نام پر جھوٹے دلاسے دئیے عملی طورپر کوئی قدم نہ اٹھا۔25جولائی 2018ء کو اقتدار کی غلام گردشوں میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف داخل ہوئی یہ وہ پارٹی ہے جو اپنی تحریک کے روزاوّل سے کسانوں کے مسائل کے حل کیلئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتی نظر آتی تھی اقتدار میں آنے کے بعد زراعت کے شعبے کے حوالے سے مختلف ٹاسک فورس اور کمیٹیاں بنائی گئیں زیادہ تر کمیٹیوں کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماجہانگیر خان ترین کوسونپی گئی جس نے اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات کی روشنی میں کسانوں اور کاشتکاروں کی بحالی کے علاوہ زراعت کو صنعت کادرجہ دلانے کیلئے عملی طور پر اقدامات شروع کردئیے اور مختلف نوعیت کے فلاحی منصوبے شروع کئے گئے جس کے گراس روٹ لیول پر ڈائریکٹ کاشتکار کو فائد ہ پہنچنے کی توقع ہے۔

گزشتہ کئی ماہ سے جہاں پورا ملک کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں مبتلاہے وہیں کسانوں کی رہی سہی کمر ژالہ باری سے ٹنل فارمنگ کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے سے ٹوٹ گئی جس کاخمیازہ تاحال پورا نہ ہواتھا کہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی بندش نے ٹنل فارمنگ سے تیارباقی ماندہ سبزیاں ملک کے کونے کونے تک پہنچنے کی بجائے مقامی منڈیوں میں اونے پونے فروخت ہونے لگی بلکہ بعض اوقات سبزیوں کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے اس کی چنوائی کروانے کے بعد جانوروں کوبطور چارہ ڈالنے کی نوبت آئی ۔

اس ساری صورتحال میں موجودہ حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف /امدادی پیکج سامنے نہ آیاابھی کسانوں کے یہ زخم تازہ ہی تھے کہ کپاس،مکئی ،دھان ،چارے،باغات سمیت دیگر کاشت کی گئی ہزاروں ایکٹرز پر مشتمل فصلوں پرٹڈی دل کاحملہ ہوگیاجس سے تباہ حال کاشتکارایک نئی مصیبت میں مبتلاہوگیا ٹڈی دل نے ہمارے دیہی علاقے کے علاوہ پورے جنوبی پنجاب میں یلغار کرتے ہوئے کھڑی فصلوں کوتباہ کردیا ٹڈی دل کامسلّہ کئی ماہ سے سامنے آیاہواتھا لیکن بزاد سائیں کی پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں بروقت اقدامات نہ کئے گئے اب ٹڈی دل کے حملے میں شدت آگئی ہے جس سے کسانوں کولاکھوں روپے نقصان کے علاوہ دوبارہ کاشت کرنی پڑرہی ہے جبکہ بعض علاقوں میں تیسری مرتبہ بھی کاشت کی نوبت آچکی ہے لیکن حکومتی اور بیوروکریسی کے اعلیٰ دماغ کسانوں اور فصلوں کے بچاؤکے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر نظرآرہے ہیں ٹڈی دل سے بچاؤکیلئے کسان اپنی مدد آپ کے تحت ڈھول اور برتن بجانے پر مجبور ہوگیاہے ساری صورتحال میں سائیں حکومت کاکردار کہیں بھی نظرنہیں آرہا ہے موجودہ حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی مانند فوٹوسیشنز تک محدود ہے بلکہ بزدار سائیں کی جانب سے کاشتکاروں سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کاشت کی گئی فصلوں کو بچانے کیلئے مسلسل ڈھول بجائیں سوال یہ ہے کہ حکومت اور زراعت عملہ موجودہ صورتحال میں کیاحکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہے کیاسب کچھ کسان نے خود کرناہے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیاصرف فرضی اور کاغذی اعدادوشمار عوام کے سامنے پیش کر کے اپنے حق میں ڈھول بجواناچاہتی ہے سائیں سرکار فوری طور پر خواب غفلت سے بیدار ہوئے اورمحکمہ زراعت میں محنتی اور درد دل رکھنے والااعلیٰ افسر تعینات کرئے اور اسی طرح تباہ حال کاشتکار کی بحالی کیلئے کمیٹی کمیٹی کھیل شروع کرنے کی بجائے ریلیف پیکج کااعلان کرئے اورمالیہ ،آبیانہ سمیت زرعی ٹیکس کے خاتمے کااعلان کرئے تاکہ کسانوں کی صیحح معنوں میں دادرسی ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :