فوٹو سیشن کاخاتمہ

پیر 27 اپریل 2020

Mohammad Saleem Khalid

محمد سلیم خالد

ایک وقت تھا جب پورے پنجاب میں شریف برادران کی شاہی حکومت ہوتی تھی اور ان کے منہ سے نکلا ہوالفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھاایک نائب قاصد سے لیکر گریڈ22کے اعلیٰ تر ین بیورو کریٹ کو ان احکامات سے روگردانی کی ہمت نہیں ہوتی تھی ہرطرف میاں برادران کے احکامات کی تعمیل ہوتی نظر آتی تھی طویل عرصہ پنجاب اور مرکز میں حکمرانی کرتے ہوئے یقینا عوامی فلاح کے منصوبے بھی شروع کروائے ہونگے جس کاڈائریکٹ ان ڈائریکٹ عوام کوفائدہ بھی پہنچاہوگا مگر اکثر منصوبے حقائق کے مطابق کاغذی اور فوٹوسیشن ہی ثابت ہوئے جس سے عوام کو فائدہ حاصل نہیں ہوا بلکہ قومی خزانے کو عوام کے نام پر بڑی بے دردی کے ساتھ لوٹا گیاکبھی صاف پانی ،کبھی میٹروبس ،کبھی اورنج ٹرین ،کبھی صاف دیہات پروگرام اور کبھی ماڈل بازاروں کے نام پر منصوبے شروع کئے گئے جبکہ اسی طرح کے دیگر منصوبے بھی جوعوامی فلاح اور بہتری کے حوالے سے تخلیق کئے گئے جو درحقیقت اکثر کاغذی منصوبے ثابت ہوئے انھیں منصوبوں میں ہرسال عوام کوایک چھت تلے سستی اشیاء خوردونوش کی فراہمی کامنصوبہ بھی شامل ہوتاتھا جسے رمضان بازار کانام دے کر ہرشہر میں سجایاجاتاتھا ماہ رمضان شروع ہونے سے قبل ہر ضلع اور تحصیل میں تیاریاں شاہی حکم کے مطابق شروع کردی جاتی اور پھر یکم رمضان سے مخصوص جگہوں پر رمضان بازار لگائے جاتے جو چاندرات تک شواہد کے مطابق منت سماجت اوربعض اوقات زبردستی لگوائے جاتے ان رمضان بازاروں کے لئے مقامی انتظامیہ لاکھوں روپوں کے کوٹیشن بلز سرکاری فنڈز سے نکلواتے جن میں سے اکثر بلزفیک اور فرضی بلوں پر مشتمل ہوتے لیکن ہائی کمان کے احکامات پورا کرتے کرتے اپنابھی حساب پوراکرجاتے اس دوران لگائے گئے سٹالز اور دکانوں پر عوام کواوپن مارکیٹ سے بھی مہنگے داموں اشیاء خوردونوش دستیاب ہوتے جبکہ شاہی حکم کے تحت لگائے جانے والے ان رمضان بازاروں کیلئے وزراء اور سیکرٹریوں پر مشتمل معائنہ ٹیمیں بھی تشکیل دی جاتی جو بظاہرعوام کی دادرسی کیلئے فل پروٹوکول کے ساتھ رمضان بازاروں کادورے کرتے فوٹو سیشن ہوتا اوراپنی حکومت کے قصیدے سناکرچلتے بنتے لیکن ان دوروں سے عوام کو فائدہ ہونے کی بجائے آنے والوں کوTADAکی مد میں ضرور فائدہ ہوتاتھاشاہی حکومت کے خاتمے کے بعد 2019ء میں پی ٹی آئی حکومت برسراقتدار آئی تو صوبے میں موجود سابقہ بیوروکریسی نے اپنی پرانی چالیں چلتے ہوئے ایک بار پھر ماہ رمضان کے شروع ہونے سے قبل رمضان بازار وں کے ذریعے عوام کوریلیف پروگرام دینے کا منصوبہ پیش کیاگیا جس پر عمل کرتے ہوئے پورے پنجاب میں رمضان بازار لگاتے ہوئے عوام کو بہتر اور معیاری اشیاء خوردونوش کی فراہمی کاسلسلہ شروع کیاسرکاری خزانے سے عوام کی فلاح کیلئے فنڈز تو خرچ کئے گئے مگر اس سال بھی عوام ان بازاروں سے ریلیف حاصل کرنے سے قاصر رہی ماضی کی طرح ،،فوٹوسیشن اور سب اچھا،،ہے والاسلسلہ موجودہ حکومت میں بھی چلا۔

(جاری ہے)

اس سال پورے ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے تمام صوبوں کی پنجاب میں بھی لاک ڈاؤن اور دفعہ 144کے نافذکی وجہ سے،، رمضان بازار شو ،،نہ ہوسکا نہ ہی سڑکیں بند کی گئیں اور نہ فرضی بلز سرکاری فنڈز سے نکلوائے گئے جبکہ فوٹوسیشن والہ معاملہ بھی ختم ہوگیا اسی طرح دیگر منصوبوں سے بھی غیر ضروری فوٹو سیشن کاخاتمہ اشد اہم ہے ماضی میں ہمیشہ شاہی حکومت کاٹوٹل فوکس ہی فوٹو سیشن کے گردگھومتاتھا ہر اشتہار اور پینافلیکس میں میاں برادران کی تصاویر نمایاں طور پر لگائی جاتی تھی تاکہ عوام کوبتایاجاسکے کہ ہم اپنی عوام کو کتنے اچھے اندازمیں بیوقوف بنارہے ہیں آج بھی موجودہ حکومت کو بیوروکریسی میں بیٹھے ذہین فطین دماغ فوٹو سیشنوں اور لیپ ٹاپ بریفنگ تک محدود رکھے ہوئی ہے زمین پر عوام کے ساتھ ہورہاہے اس کی خبرنہ کل کسی کو تھی اور نہ آج نظر آتی ہے کیونکہ ہم نے وہ ہی دیکھناہے جو ہمارے قرب میں بیٹھے ہوئے افراد ہمیں دکھائیں گئے ہماری یہ عادتیں اب بہت پختہ ہوچکی ہیں جوکسی طور تبدیل ہونے کانام نہیں لیتی عوامی دکھ اور تکلیف محسوس کرنااور اس پر باتیں کرنا سب خوبصورت عمل ہے لیکن عوام کے انھی دکھوں کے مداواہ کیلئے حکومت کو گراؤنڈ پر بہتر پرفارم کرناہوگااورعوامی سطح پر کیاہورہاہے اس پر نظر رکھنی ہوگی کیونکہ موجودہ وقت میں عوام جس پریشانی اور بے کسی کے دور سے گزر رہی وہاں معاملہ فوٹوسیشنوں اور بریفنگ تک نہیں رہ جاتا بلکہ عملی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے نچلی سطح پر موجود انتظامیہ کو پابند کیاجائے کہ وہ اعلیٰ حکام کی جانب سے دی گئی مختلف آن لائن ایپ کو عوام کے فلاح کے استعمال میں لائیں تاکہ آج کاانسان جوکوروناجیسی وباء سے متاثر ہے اسکی صحیح معنوں میں دادرسی ممکن ہوسکے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :