چیف سیکرٹری پنجاب کے عزائم اور ان سے توقعات

پیر 13 ستمبر 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

نئے چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران علی افضل ایک طویل عرصے  بعد پنجاب میں تعینات ہوئے ہیں،انہیں یہاں کسی مین سٹریم پوسٹ پر کام کرنے کا تجربہ ہے نہ زیادہ تر افسروں سے آشنائی  مگر دوسری طرف انکی شہرت ایک نیک نام ،منجھے ہوئے ،اچھے،نستعلیق،کام کرنے والے  اور دھیمے مزاج  افسر کی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک سول سیکریٹیریٹ  کی رپورٹنگ ،افسروں سے دوستیوں  اور  اسٹیبلشمنٹ کی  خبروں تجزیوں کے باوجود  میں  ان  سے آشنائی نہیں رکھتا،اس لئے انکی تعیناتی کے بعد  دوست افسروں سے ان کے متعلق جاننے کی کوشش کی  تو  اچھی رائے ملی یعنی   نرم دم گفتگو،گرم دم جستجو۔

میرے ایک  بہترین دوست ، اپنے زمانے کے  نامی گرامی، انتہائی  کمپیٹنٹ ،اپ رائٹ افسر  جو ،اب ریٹائرمنٹ پا چکے ان کے  جونیئر کے طور پر   کامران افضل صاحب نے  وزیر اعظم  سیکریٹیریٹ  اسلام آباد میں  پانچ سال  کام کیا ہے ،اسی طرح  میرے ایک بھائی کے ماتحت بھی وہ پنجاب کے محکمہ خزانہ میں  کام کر چکے ہیں ، جن سے  بات چیت کر کے  میں نے ان کے کام  اور شخصیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ پنجاب حکومت کے  چوتھے سال میں  وہ پانچویں  چیف سیکرٹری ہیں اور  انہیں  یہاںگورننس ٹھیک کرنے کا خصوصی مینڈیٹ بھی دیا گیا ہے ۔وہ ایسے افسر ہیں جو کوئی غلط کام کرتے ہیں نہ ایسے کام کا حصہ بنتے ہیں وہ وفاق  کے محکمہ خزانہ میں اس کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں ۔
سیاسی حکومتوں کے ساتھ کام کرنا ایک چیف سیکرٹری کا بہت بڑا امتحان ہوتا ہے ،ویسے تو موجودہ چیف سیکرٹری ایک پی ایچ ڈی ،ڈاکٹر ہیں مگر جب وہ پنجاب سے جائیں گے تو ڈبل ڈاکٹر بن کر جائیں گے یعنی موجودہ حکومت کے ساتھ کام کرنے میں بھی پی ایچ ڈی کریں گے ،وہ ایک اپ رائٹ افسر ہیں اور ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ غلط کو منہ پر غلط کہتے ہیں،رولز ،ریگولیشن ظابطے انہیںاز بر ہیں،خوبصورت انگریزی لکھتے اور بولتے  ہیں مگر یہاں انہیں  اچھی پنجابی اور سرائیکی  بھی سیکھنی پڑے گی ورنہ ان کے لئے  زیادہ دیر چلنا مشکل ہو جائے گا  ۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نے تو انکی پبلک ایڈمنسٹریشن پر بک چھاپی تھی اب یہاں انہیں پنجاب کے افسروں کو پڑہانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ لکھنا پڑے گا ورنہ یہ تو چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری  کے اجلاس میں بھی تاخیر سے آنے کے عادی ہو چکے ہیں۔نئے چیف سیکرٹری کو اس کا اندازہ  افسروں کے ساتھ اپنے پہلے ہی انٹر ایکشن میں ہو چکا ہے۔کیسے مزے کی بات ہے کہ چیف سیکرٹری نے دو بجے سیکرٹریوں کا اجلاس بلایا  مگر پانچ چھ سیکرٹری  تاخیر سے پہنچے جبکہ چیف سیکرٹری  پورے دہ بجے اجلاس میں موجود تھے ان کے  دو کلاس فیلو سیکرٹریوں میں سے بھی ایک  لیٹ کمر تھا،اسی طرح کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ میٹنگ میں بھی کئی افسر لیٹ تھے۔

ظاہر ہے پہلی پہلی ملاقات کی وجہ سے چیف  سیکرٹری برداشت کر گئے ہیں   مگر انہوں نے اس پر نرمی سے  اظہار ناراضگی  کر دیا ۔
چیف سیکرٹری  سے سینیئر  دو ایڈیشنل چیف سیکرٹریوں  نے انہیں اپنا باس  تسلیم  کر کے  ان کے ہاتھ پر باقاعدہ  بیعت کر لی ہے ایک کا خیال ہے کہ جلد ہی انکی ریٹائرمنٹ ہے اس لئے وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتے جبکہ دوسری نے انہیں باقاعدہ خوش آمدید کہتے ہوئے انکی تعریفیں بھی کی ہیں،انہیں خراج تحسین  بھی پیش کیا ہے،ان کا خیال ہے کہ ابھی ان کے پاس  وفاق میں جانے کے لئے اور گریڈ بائیس حاصل کرنے کے لئے کافی وقت ہے۔

گریڈ بائیس کے سینیئر ممبر بورڈ آف ریوینیو بابر حیات تارڑ  کو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے پنجاب سے جانے کی اجازت نہیں دی  اس لئے  بورڈ آف ریونیو کی الگ اتھارٹی کو تسلیم کر لیا گیا ہے ،وہ  چیف سیکرٹری کی بجائے   براہ راست وزیر اعلیٰ کو رپورٹ کریں گے،ماضی میں جب پنجاب میں  سی ایس پی  72 بیج کے کامران رسول چیف سیکرٹری پنجاب تھے تو ان کے سینئر  سی ایس پی 70بیج کے  شہزاد حسن پرویز سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو  کام کر چکے ہیں۔


اب ذرا  ذکر چیف سیکرٹری کے افسروں سے انٹر ایکشن خطاب کا  جس میں انہوں نے   اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا  ہے  کہ کسی افسر کو قواعد و ضوابط کیخلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،سب میرٹ پر بلاخوف و خطر فیصلے کریں،کوئی افسر کسی دوسرے کے کام میں بلا جواز مداخلت نہیں کرے گا،بے وجہ سیاسی مداخلت اور دبائو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا،انہوں نے افسروں سے  یہ  بھی کہا کہ کوئی سیاسی دبائو یا مداخلت قبول کئے بغیر میرٹ پر فیصلے کریں،کرپشن ناقابل برداشت ہے ،کرپٹ افسروں کیخلاف سخت ترین کارروائی ہو گی،ڈاکٹر کامران علی افضل نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے افسروں کو بتایا کہ عوامی مسائل کا حل، افسر اپنی  پہلی ترجیح رکھیں،ہر افسر کو اپنے اپنے محکمہ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو دکھائی بھی دیں اور جن کے اثرات بھی عوام پر نظر آئیں۔


    کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کیساتھ اجلاس میں عوام کو انصاف فراہم کرنے اور امن و امان کے یقینی قیام پر بات چیت ہوئی ،چیف سیکرٹری نے واضح کیا کہ تبادلے کار کردگی   پر   تعیناتی سوچ سمجھ کر ہو گی مگر ہر افسر کی سختی سے جانچ پڑتال ہو گی ،ہر افسراپنی کارکردگی کیلئے جواب دہ ہو گا۔ عوام کی ترقی،بہبود،عوامی خدمات کے حوالے سے بہتری،کرپشن کا خاتمہ،ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور
 معیاری تکمیل،عوام کے جان و مال آبرو کا تحفظ،امن و امان کا قیام ان کی ترجیح ہے ان کیلئے جو افسر کام کرے گا اس کو خوشگوار ماحول کیساتھ
 آزادی اور اعزاز و اکرام ملے گا،انہوں نے کہا عام آدمی کا مسٔلہ مہنگائی ہے،اس پر قابو پانے کیلئے عملی،متواتر اور موثٔر اقدامات کئے جائیں ،ذخیرہ اندوزوں ناجائز منافع خوروں کیخلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے،انہوں نے تمام افسروں کو ہدائت کی کہ عوام کو سرکاری دفاتر میں عزت و احترام دینے کیساتھ ان کے مسائل فوری حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

ڈاکٹر کامران علی افضل کے عزائم سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ کرنے کا عزم لے کر آئے ہیں اور امکان ہے کہ کچھ کر جائیں مگر ضروری ہے کہ وہ پنجاب کے مسائل و مشکلات سے آگاہ افسروں کی ٹیم ساتھ رکھیں،اس طرح وہ کم وقت میں زیادہ اور بہتر ڈیلیور کر سکیں گے۔
آخر  میں ایک خبر  کہ  لاہور ڈویژن  کے  مختلف  اضلاع  سے تعلق رکھنے والے  ڈپٹی کمشنرز اپنے کمشنر سے بہت تنگ ہیں انہوں نے  متعلقہ  اتھارٹیز کو اس سلسلے میں  ان ڈائرکٹ گزارشات پہنچائی ہیں تاکہ انہیں اس ایزا رسانی سے نجات دلائی جائے۔

دوسری خبر یہ ہے کہ صوبائی سیکرٹری بلدیات نو ر الامین مینگل ،اس محکمے سے اپنی جان چھڑانے کے لئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں مگر لگتا نہیں کہ انکی جان چھوٹے،وہ کسی ڈویژن میں کمشنر لگنا چاہ رہے ہیں،پنجاب کی ایک اعلیٰ سیاسی  نے ان کے بارے تبصرہ  کیا کہ وہ ،،چلتے پھرتے رہنا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :