
ریاست مدینہ کا تصور اور کینیڈا
جمعہ 15 اکتوبر 2021

محسن گورایہ
ریاست مدینہ در اصل ہر انسان کا خواب ہے مگر ہمسایہ ملک افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے اور ہم ریاست مدینہ کو سینچ رہے ہیں لیکن ان دونوں ریاستوں کے بنیادی تصورات اور نظریات میں زمین آسمان کا تفاوت ہے جس کی وجہ سے مخالفین کو طعن و طنز کا موقع میسر آسکتا ہے،اس حوالے سے دنیا میں موجودہ حالات میں ایسی ہی ایک فلاحی ریاست کینیڈا کے فلاحی اور رفاعی منصوبوںپر ایک نگا ہ ڈالنا بہت مناسب ہو گا جہاں بنیادی تعلیم ،صحت کی بلا معاوضہ سہولیات بلا امتیاز فراہم کی جاتی ہیں ،تعلیمی اداروں کا معیار اور نصاب بھی ایک ہے،ہسپتالوں میں ہر شہری کو علاج معالجہ کی سہولیات یکساں فراہم کی جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
بچے کی پیدائش پر ریاست کی جانب سے وظیفہ مقرر کرنے کی روائت حضرت عمر کے دور میں شروع ہوئی،اس عمدہ اور درد مندی کی روائت کو مغرب کی ان ریاستوں نے بھی اپنایا جن کو ہم کافر گردانتے اور جنت کا حقدار نہیں سمجھتے،کینیڈا میں بچے کی پیدائش کیساتھ ہی وظیفہ مقرر کرنے کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور کوئی بچہ اس سے محروم نہیں خواہ وہ مقامی ہو یا تارکین وطن میں سے ہو،عدل و انصاف اسلام کا بنیادی اور انتہائی اہم تقاضا ہے،غیر عادل اور انصاف دشمن کیلئے قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے،حضرت علی کا فرمان ہے کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں،مگر یہ بات انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ اسلامی ممالک میں انصاف کی فراہمی کا نظام انتہائی ناقص ہے،وطن عزیز میں بھی دو قانون ہیں غریب کیلئے الگ اور امیر کیلئے الگ،یہاں غریب شہری معمولی جرائم میں سالوں جیل میں سڑتا ہے اور باثر اور مال والے لوگ سنگین جرائم کر کے بھی باعزت شہری کہلاتے ہیں اور قانون ان سے خوفزدہ رہتا ہے،مگر کینیڈا میں انصاف کا کڑا نظام رائج ہے،اسلامی ممالک میں کوئی کسی سے زیادتی کرے تو وہ کہتا ہے کہ روز قیامت اللہ پاک تم سے حساب لیں گے مگر کینیڈا میں ایسی صورتحال پر کہتے ہیں اب آپ کو عدالت میں دیکھیں گے،اور ان کو عدالت سے انصاف ملنے کا کامل یقین ہوتا ہے۔
ریاست مدینہ کا تصور اس وقت تک ادھورا ہے جب تک انصاف عام نہ ہو ہر شہری کو استحقاق کے مطابق بلا امتیاز عدل میسر ہونا ہی ریاست مدینہ کا اصل مقصد ہونا چاہئے اور اس حوالے سے کینیڈا کے نظام انصاف سے مدد لی جا سکتی ہے،مملکت خداداد میں اول تو قوانین ہی امتیازی ہیں اور جو ہیں ان پر عملدرآمد میں بھی امتیاز برتا جاتا ہے،تھانوں میں ایک جرم میں زیر حراست اہل زر کیلئے مراعات تو غریب شہری کیلئے ذلت و عقوبت،اگر کامیاب ریاست مدینہ کے خواب کو عملی تعبیر دینا ہے تو ملک میں انصاف کے نظام کو خامیوں سے پاک کرنا ہو گا،اور اس کیلئےاگر چہ ریاست مدینہ ہی نظیر ہے مگر کینیڈین نظام انصاف سے مدد لیکر نظام انصاف کو اسلامی خطوط پر ڈھالا جا سکتا ہے۔
محروم الوسائل اور مفلوک الحال شہریوں کی کفالت بھی ریاست مدینہ کا بنیادی فرض ہے،غریب شہریوں کی کفالت کسی بھی ریاست کا فرض ہے،جو ریاست اپنے شہریوں کو روٹی کپڑا اور مکان کی سہولیات نہ دے سکے اسے حکمرانی کرنے کا کوئی اختیار نہیں،کینیڈین حکومت اپنے شہریوں کو بیروزگاری،طویل العمری،وسائل کی کمی،بچوں کی تعلیم،علاج معالجہ،سمیت ہر قسم کے الائونس فراہم کرتی ہے،حالیہ عالمی وبأ کووڈ ۱۹میں بھی کینیڈا حکومت نے اپنے شہریوں کی ہر ممکن مالی امداد کی،گھر بیٹھنے والے ملازمین کو چالیس فیصد تنخواہ آجر دیتا تھا توباقی ساٹھ فیصد حکومت نے ادا کی،ڈیوٹی پر آنے والوں کو خصوصی وظیفہ دیا گیا،سرکاری ملازمین کو بھی خصوصی مراعات دی گئیں،یہ ایک ریاست کی اپنے شہریوں سے ہمدردی کی بہترین مثال ہے،تحریک انصاف حکومت اگر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے تو شہریوں کی کفالت بھی اس کی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے بھی کینیڈین فلاحی نظام بہترین مثال ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
غیر مسلم فلاحی رفاعی ریاستوں نے بھی ریاست مدینہ کو ہی بنیاد بنا کر اپنے ممالک میں شہریوں کی بہبود کے منصوبے بنائے،سویڈن میں بچوں اور غریب شہریوں کی کفالت کیلئے کی گئی قانون سازی کا نام ہی عمر لا ٔز رکھا گیا ہے،یہ ان کی دیانتداری کی انتہا ہے کہ جن قوانین سے انہوں نے استفادہ کیا مذہبی اختلاف کے باوجود ان کو اسی انداز سے خراج عقیدت پیش کیا،لیکن انہی قوانین کی وجہ سے سکینڈے نیوین ممالک آج فلاحی ریاستوں میں سر فہرست ہیں،مگر بقول اقبال بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے تعلیم پائی تھی،اور انہوں نےاس تعلیم سے استفادہ کیا جو صدیوں ہم سے حالت جنگ میں رہےکینیڈا کو بھی برطانوی سامراج سے آزادی ملی مگر کینیڈا آج ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں سر اٹھائے کھڑا ہے جبکہ ہم آج بھی قرض کی مۓ پر گزر بسر کر رہے ہیں،وجہ یہی ہے کہ ہم نےعدل و انصاف پر مبنی قانون سازی نہیں کی،اور جو قانون بنائے ان پر مساویانہ عمل درآمد سے دانستہ گریز کیا جس بنا پر ہم آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں اور کینیڈا کے شہری دنیا میں ہی جنت کے مزے لے رہے ہیں،اگر ہمیں واقعی ریاست مدینہ کے خواب کو عملی تعبیر دینا ہے تو کینیڈا کے نظام سے استفادہ کرنا ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.