کارکردگی اور حوصلہ افزائی

جمعرات 6 جنوری 2022

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

کارکردگی اور حوصلہ افزائیراقم کبھی کسی زعم میں مبتلا  نہیں رہا،سقراط بقراط ہونے کا خبط سر پر سوار کر کے کبھی قلم آزمائی نہیں کی، اسی لئے قارئین جانتے ہیں کہ ان کالموں میں کبھی ”میں میں“ کی تکرار نہیں ہوتی،بطور صحافی  بہتری کے لئے جہاں مشورہ کی گنجائش ہوتی ہے  اسے اپنا  فرض سمجھتا ہوں،متعدد بار ایسا ہوا کہ حکومت ، انتظامیہ  اور بیوروکریسی کوحالات و واقعات کے تناظر میں دئیے گئے مشوروں کو تسلیم کر کے اقدامات بروئے کار لائے گئے مگر کبھی  ان اقدامات کا کریڈٹ  لینے کی بھی کوشش نہیں کی کہ ہمارا  کام  بہتری کی ترغیب دینا  ہے ،”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔


وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے انکشاف کیا ہے کہ وزراء اور بیو روکریسی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے  پرفارمنس ایگریمنٹس گوورنس کے نظام میں تبدیلی لائی جا رہی ہے،یہ پہلا موقع ہے کہ وزراء اور سیکرٹری صاحبان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے آؤٹ پٹ بیسڈ ماڈل متعارف کرایا جا رہا ہے،مسابقتی اور  کار کردگی کلچر کی حوصلہ افزائی کیلئے پرفارمنس بونس متعارف کیا گیا ہے جو کسی بھی وزارت کے عملے کو کارکردگی سکور 80فیصد یا اس سے زائد ہونے پر دیا جائیگا،اسی بات کی طرف راقم ان سطور میں بارہا مرتبہ توجہ دلا چکا ہے،سرکاری عملہ کی کارکردگی کا باقاعدہ جائزہ لینے اور اچھی کارکردگی پر اعزاز و اکرام اور بری پر سرزنش،انتباہ،مہلت اور آخر میں سزا کی تجویز دی گئی،صد شکر کہ حکمران طبقہ نے سرکاری مشینری کی اہمیت کو محسوس کیا اور کار کردگی کا جائزہ لیکر جزا و سزا کا نظام وضع کیا گیا۔

(جاری ہے)


بہت سیدھی سی بات کار پردازان حکومت کو بہت دیر میں سمجھ آئی،وزراٗ ء  حکومت ہوتے ہیں جن کا کام فیصلہ سازی  جبکہ بیوروکریسی انتظامیہ ہوتی ہے یعنی ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ دار اور سرکاری عملہ حکومت اور انتظامیہ کی مشینری،اب اگر مشینری کا کوئی کل پرزہ خراب ہو جائے تو مشینری ٹھپ ہو جائیگی اور مشینری کے منجمند ہو نے کا مطلب ہے انتظامیہ جام اور انتظامیہ کے جام ہونے کا مطلب ہے حکومت ناکام،اچھی حکومت ہمیشہ انتظامی مشینری کی دیکھ بھال بہت سلیقے اور توجہ و ذمہ داری سے کرتی ہے کہ ایک پرزہ کی خرابی سے پوری مشین کی کار کردگی فلاپ ہو جاتی ہے،اس لئے ترقی یافتہ  ممالک میں حکومتی اور ریاستی ملازمین میں بہت نمایاں تفریق کی جا تی ہے،سرکاری مشینری حکومتی نہیں ریاستی ملازم ہوتی ہے،اس لئے اس کی ذمہ داریاں دوچند ہوتی ہیں اسے حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کیساتھ ریاستی مفاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے،صد شکر کہ حکومتی ذمہ  داران کو یہ بات دیر سے ہی سہی مگر سمجھ آگئی۔


تحریک انصاف حکومت کا المیہ ہے کہ ابتداء سے ہی وزراء نے بیوروکریسی کو مشکوک جان لیا،اگر چہ بیوروکریسی میں سابق حکمرانوں خاص طور پر شریف خاندان کے بہت سے وفادار موجود تھے، بعض نے حکومت کیلئے مشکلات بھی کھڑی کرنے کی کوشش کی،مگر ان میں بہت سارے کام کرنے والے تھے مگر  چند گندی  مچھلیوں کی سزا ساری بیوروکریسی کو دی گئی،نتیجے میں کبھی بیوروکریسی خوفزدہ ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھی  رہی اور کبھی نیب کے چرکے سہتے شب و  روز گزارتی رہی،صبح تعیناتی ہوتی  رات کو تبادلہ،کسی کو ٹک کر کام کرنے کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں دیا گیاجس کا منطقی نتیجہ حکومتی اور انتظامی معاملات میں تعطل کی شکل میں نمودار ہواء،حکومت کے ابتدائی تین سال تجربات کی نذر ہو گئے،موجودہ پنجاب  حکومت کی کار کردگی کا بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ   چند وزراء کی کارکردگی قابل رشک ہےباقی وزراء اب تک پوری طرح اپنی محکمانہ ذمہ داریوں اورماتحت سرکاری مشینری سے بھی آگاہ نہیں ہو پائے، اس کے مقابلے میں  بیوروکریسی  کی کارکردگی  مثالی رہی  اور  جن وزراء کی کارکردگی اچھی ہے اس کی وجوہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنے سیکرٹری صاحبان سے تال میل رکھا اور ماتحت سرکاری مشینری کو اہداف دئیے،وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنی علالت کے باوجود شعبہ صحت میں کارہائے نمایاں انجام دئیے،کورونا کے بعد ڈینگی کی وباء کا سامنا کیا،کورونا پر قابو پانے کیلئے اقدامات اور ویکسئین فراہمی کی تعریف عالمی سطح پر کی گئی،مگر  محکمہ صحت کے سیکرٹری اور عملہ ان کا ساتھ نہ دیتا تو کیا وہ اس عالمی وباء پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتی تھیں؟ماضی میں یہاں نبیل اعوان  نے بڑا اچھا کام کیا اور  اب تو  محکمہ صحت میں احمد جاوید قاضی اور عمران سکندر کی صورت میں  بہترین انتظامی  ٹیم ہے   دونوں سیکرٹری مثالی کام کر رہے ہیں۔


صوبائی وزیر صنعت اسلم اقبال بھی پنجاب کے چند اچھے وزرا ء میں سے ہیں ،وہ  اپنی حکومت اور پارٹی کی نیک نامی کے   ساتھ ساتھ صنعت اور صنعتکاروں کی بھلائی کیلئے بہت کام کر رہے ہیں ،ان کی تعریف نہ کرنا  بخیلی ہو گی مگر ان کی کامیابی بھی سیکرٹری صنعت اور محکمہ صنعت کے ملازمین کی مرہون منت ہے،   سیکرٹری  صنعت  واصف خورشید  موجودہ  بیوروکریٹک  ٹیم کا  ایک   اچھا نام ہیں،محنتی افسر ہیں ۔

   وزیر زراعت،سید حسین جہانیاں گردیزی  انتہائی انسان دوست اور تجربہ کار وزیر ہیں اور ان کے سیکرٹری اسد رحمان گیلانی بڑے  محنتی ، مثبت سوچ  اور کام کرنے والے افسر ہیں  ،ان دونوں   کی کوششوں کے نتیجے میں تمام اجناس کی پیداوار میں اضافہ ہواء اور کسانوں کو 11ارب کا اضافی فائدہ ہواء،لیکن کیا یہ کارنامہ تنہا وزیر انجام دے سکتے تھے؟اگر سیکرٹری زراعت  اور محکمہ زراعت کا عملہ   ان کی پالیسیوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے جان نہ مارتا،فیلڈ میں نہ نکلتا،کسانوں کی مشکلات،ضروریات سے آگاہی  حاصل کر کے حکومت کے علم میں نہ لاتا تو وزیر موصوف اپنے دفتر میں بیٹھے بیانات جاری کرتے رہتے۔

یہ چند مثالیں ہیں مگر  برملاء یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ غیر یقینی صورتحال،عدم اعتماد،اور خوف و ہراس کے باوجود پنجاب  کے اکثر محکموں کے سیکرٹری صاحبان اور ماتحت عملہ کی کارکردگی بہتر ہے۔
اگر حکومت سازی کے فوری بعد کارکردگی کی بنیاد پر ترقی تعیناتی،اعزاز و اکرام کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تو اب تک ہر شعبہ زندگی میں انقلاب برپا ہو چکا ہوتا،وفاقی اور صوبائی حکومت کے بہت سے اقدامات ایسے ہیں جن پر بیوروکریسی اور سرکاری عملہ نے کامیابی سے عملدرآمد کر کے حکومت کو سرخرو کیا مگر کریڈٹ وزراء لیتے رہے اور سرکاری عملہ اعزاز و اکرام سے محروم رہا،احساس نوجوان پروگرام،احساس کسان پروگرام،پناہ گاہیں اور اب صحت کارڈ   کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں بیوروکریسی اور سرکاری مشینری کی محنت   شامل ہے اگر کارکردگی کا جائزہ پرفارمنس کی بنیاد پر لے کر عزت و احترام اور انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تو اب ساری سرکاری مشینری متحرک اور فعال ہو کر تندہی سے فرائض انجام دے رہی ہوتی،اسی تناظر میں پنجاب حکومت کو مشورہ ہے کہ فوری طور پر جن سیکرٹری صاحبان ما تحت عملہ کی کارکردگی قابل ستائش ہے ان کی ستائش اعزاز و اکرام سے کرے تاکہ حکومت اور سرکاری عملہ میں جاری بد اعتمادی کا خاتمہ ہو سکے اور سب ذمہ داری سے فرائض منصبی ادا کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :