کرونا وائرس اور حالاتِ زندگی

بدھ 13 مئی 2020

Mominah Hamza

مومنہ حمزہ

جیسا کے ہم سب کو معلوم ہے کے پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان سمیت پوری دنیا لاک ڈاون کی صورتحال سے دوچار ہے۔ زندگی کب رواں ہو گئی دنیا میں کسی کو معلوم نہیں کیوں کہ ہم ایک ایسی سمت رواں ہیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں کہ وہ ہمیں کس جانب لے جائے گی۔کورونا وائرس وبائی مرض اور اس کے نتیجے میں معاشرتی ماحولیاتی اور معاشی اثرات کے نتیجے میں ماحولیات اور قدرتی وسائل کے اڈوں پر لاحق خطرات پر توجہ دینی ہوگی۔


دیہی علاقوں میں بہت سے چھوٹے کسان، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔اور ساحلی آبادی میں رہنے والے لوگ بائیو ٹریڈ، جنگلات اور ماہی گیری کی مصنوعات اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔چونکہ یہ بحران دونوں قومی اور بین الاقوامی مارکیٹوں کے ساتھ روابط میں رکاوٹ کا باعث ہے، دیہی کاشتکار، جن میں سے بہت سے خواتین پورے گھرانوں کی مدد کرتی ہیں، اب وہ اپنے کاروبار اور ذریعہ معاش کو مکمل طور پر برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

کرونا کے باعث بحران کے تمام ماحولیاتی نتائج مثبت نہیں ہیں ایک طرف تو ہم گاڑیوں کی آمد رفت رُکنے کو ماحول کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں دوسری جانب فضلہ کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ زرعی اور ماہی گیری کی برآمدی سطح میں شدید کمی کے باعث بڑی مقدار میں نامیاتی فضلہ پیدا ہوا ہے۔ قدرتی ماحولیاتی نظام کی بحالی اور نگرانی کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔

اور قدرتی علاقوں میں سیاحت کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ بہت سے مقامی فضلہ کے مسائل سامنے آئے ہیں کیونکہ بہت سی میونسپلٹیوں نے ری سائیکلنگ مراکز میں وائرس کے پھیلاؤ کے خدشہ پر اپنی ریسائکلنگ سرگرمیاں معطل کردی ہیں۔
فوڈ خوردہ فروشوں نے صارفین کے کاغذی تھیلوں کے دوبارہ استعمال پر صحت کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے چیک آؤٹ پوائنٹس پر پلاسٹک کے تھیلے کا استعمال دوبارہ شروع کردیا۔

اس کے علاوہ، گھر پر قیام کی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سارے صارفین نے تلف پذیر پیکیجنگ کے ساتھ آڈر پرکھانے منگوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جو کے انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔
ان تمام پیشرفتوں نے ایسے وقت میں کچرے کے انتظام کرنے والی صنعت کے لئے شدید چیلنجز پیدا کردیئے ہیں۔ اب وہ کورونا وائرس بحران کی وجہ سے محدود صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

چونکہ زرعی اور ماہی گیری کی مصنوعات کی برآمدات میں کمی آئی ہے، پیداوار کی سطح میں کمی آچکی ہے جس کی وجہ سے دونوں شعبوں میں بے روزگاری کی سطح میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
ہر انسان مختلف قیاس آرائی لئے بیٹھا ہے۔ مختلف نظریات کے ساتھ مختلف سوچیں آج کل ہما ری مصر و فیات ہیں، ایک جانب تو کچھ لوگ اپنی روز مرہ مصروفیات سے سبکدوش ہونے کی بنا پر بہت خوش ہیں کیونکہ اسطرح انکو اپنی فیملی کے سا تھ وقت گزارنے کا نادر مو قع ملا ہے جبکہ دوسری سمت دیکھیں تو کوئی پریشانیوں سے دوچار ہے۔

کا روبار کی مندی کی وجہ سے ملک کے معا شی حالات بہت خستہ حال ہیں۔ایسے میں عوام کے لیے ایک ارب کے رلیف پیکیج کی فراہمی احسن اقدام ہے لیکن بہت سی ایسی عوام ہے جو اس پیکیج سے مستفید ہو رہی ہے جبکہ کچھ لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔حکومت نے لاک ڈاون میں جزوی طورپرنرمی برتی ہے جو کے ہما رے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ ہم نے روز مرہ زندگی کو بھی معمول پر لانا ہے اور کرونا کو بھی شکست دینی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کے ہم احتیاتی تدابیر پر عمل پیرا ہوں۔

اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو اس وَبا سے بچائیں۔یہ وقت آزمائش کا ہے۔ ہمیں صبرو تحمل اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا اور ایسے میں ثابت قدم رہنا ہے۔کرونا صرف معاشی پریشا نی ہی نہیں بلکہ ذہنی پریشانی بھی ساتھ لایا ہے جس سے نمبٹنے کیلیے ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا۔ بے شک اللہ صبر کر نے والوں کوپسند کرتا ہے صبر کرنا ہمارے نبی پاک ﷺ کی سنت بھی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ آخر کب تک ہم حکومتی حکمت عملی پر عمل نہ کر کے اپنا نقصان خود کرتے رہیں گے اور اگر کرونا کے با عث بحران طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو، بہت سے لوگ گھریلو مارکیٹوں میں تیزی سے آمدنی پیدا کرنے کے لئے موجودہ پائیدار پیداوار کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مزید غربت بڑھے گی اور قدرتی وسائل، ماحولیاتی اور معاشی نظام کا شدید نقصان ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :