پی ٹی آئی یوکےکے انتخابات۔۔۔۔ ایک جائزہ

پیر 22 مارچ 2021

Mubeen Rasheed

مبین رشید

ٹالسٹائی نے کہا تھا کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں لیکن ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست کے اتارچڑھائو بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور اس مرتبہ پی ٹی آئی یو کے کے انٹراپارٹی الیکشنز میں ٹیکنوکریٹ صدارتی امیدوار بیرسٹر وحیدالرحمن میاں اور عوامی صدارتی امیدوار رانا عبدالستار کے درمیان دلچسپ مقابلہ بھی اس بات کو آشکار کرگیا۔


مجھے پچھلے چند سالوں سے پی ٹی آئی یو کے کے انتخابات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، انگلینڈ میں ایک کمیونٹی چینل کے چئیرمین کے طور پرگلاسگو سے لے کر کارڈ یف تک کئی مرتبہ سفر کا موقع ملا اس لیے پی ٹی آئی کی مقامی تنظیموں سے لے کر نیشنل لیول پرصدور سے قریبی روابط رہے البتہ اس مرتبہ یوکے دونوں صدارتی امیدواروں سے بہت ہی قریبی تعلق تھا۔

(جاری ہے)

ایسی صورت میں آپ کسی کی حمایت اور مخالفت کرنے کی بجائے خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ البتہ اب جبکہ نتیجہ سامنےآچکا ہے اس لیے اپنا ناقص تجزیہ پیش کرنے کی گستاخی کر رہا ہوں۔
پی ٹی آئی یوکے کے اس سال کے انتخابات میں ۱۱۴۱۸رجسٹرڈ ووٹرتھےجنہوں نے ۳۶ پائونڈ سالانہ ممبرشپ فیس ادا کی ہوئی ہے یوں پی ٹی آئی کو صرف یوکے سے ممبرشپ کی مد میں چار لاکھ گیارہ ہزاراڑتالیس پائونڈز اکٹھے ہوتے ہیں جو پاکستانی روپے میں تقریباً نو کروڑ بنتے ہیں۔

سنا ہے الیکشن کمیشن نے عمران خان صاحب کو فارن فنڈنگ کیس میں طلب کیا ہے۔ میرے خیال میں تو ان کے صرف برطانیہ کے ووٹرز اور ڈونرز ہی اس کی منی ٹریل دے دیں گے ابھی امریکہ کے ملٹی بلئنئرزتو ایک طرف ہی رہنے دیں۔ البتہ یوکے میں پارٹی انتخابات کا طریقہ کار اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس میں کچھ سرمایہ کار انتخابات سے چند روز قبل سرگرم ہوجاتے ہیں اور ممبرشپ کا ایک جمعہ بازار لگتا ہے جس میں اندھادھند ۳۶ پاؤنڈز کی ادائیگی ہوتی ہے۔

سرمایہ کار کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ ۵۰۰، ۴۰۰ ووٹ اس کی جیب میں ہیں۔ اس کی زیادہ تفصیل میں گیا تو یوکے میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ البتہ عقل مندوں کے لیے ایک اشارہ دئیے جاتے ہیں کہ پاکستان میں غیررجسٹرڈ سمز بلاک کر دی جاتی ہیں لیکن یونکہ میں بے نامی سم رکھنا کوئی جرم نہیں۔
پی ٹی آئی کی اعلی ترین قیادت اس ساری صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے لیکن انہیں اس پراسسس کو سخت کرنے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ نظر آتے ہیں۔

اس لیے اک چپ تے سو سکھ
البتہ پاکستان کی طرح برطانیہ کا بھی پی ٹی آئی کا نظریاتی کارکن اس صورتحال پر نالاں نظر آتا ہے اور اب وہ بھی کنارہ کشی اختیار کر کے خاموش مجاہد بن چکا ہے۔
اس مرتبہ ہارنے والے امیدوار بیرسٹروحیدالرحمن نے پولنگ ختم ہوتے ساتھ ہی راناعبدالستار صاحب کو مبارکباد کا پیغام بھیج دیا لیکن میرے خیال میں یہ پیغام۲۴ گھنٹے کی تاخیر سے جاری کیاگیا۔

جب میاں صاحب کو اپنی شکست فاش نوشتہ دیوار نظر آرہی تھی پھر پی ٹی آئی کے “جناتی ووٹرز” کو ساری رات جگا کر”کھل جاسم سم” پر کیوں مجبور کیا گیا۔ ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ جیت کا فاصلہ بڑھتا چکا گیا جو اختتام تک ۱۸۵۱ووٹوں سے ہار پر ختم ہوا۔
دوسری مرتبہ یوکے کے صدارتی انتخابات میں صدارت میں واضح فرق سے ہارنے والے امیدوار میاں وحیدالرحمن ایک منجھے ہوئےوکیل اورکامیاب بزنس مین ہیں، وہ انگلینڈ میں ان چند تجربہ کار اور قابل پاکستانی وکیلوں میں شمار ہوتےہیں جنہوں نے آج سے تقریباً ۲۳ سال قبل اپنی امیگریشن پریکٹس کاآغاز کیا اور شیکسپئیرکے دیس میں گوروں ججوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

امیگیریشن قوانین میں ان کا نام ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ ان کی لاء فرم سے سینکڑوں لوگوں نے اپنے “پیپرز سیدھے” کیے۔ درجنوں وکلاء نے ان سے کام سیکھ کر اپنے دفاتر کھولےاورچندسالوں میں لاکھوں پاؤنڈز کمائے۔
میری میاں صاحب سے پہلی ملاقات لندن میں منعقد کرائی جانے والی پہلی انٹرنیشنل لاء کانفرنس کے توسط سے ہوئی اورپھروہ ذاتی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

ہم کئی دفعہ گھنٹوں بیٹھ کر ان گنت موضوعات پر سچی اور کھری گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انہیں گوادر کا “قیمتی راستہ”خالصتا میرے ذاتی “مفت مشورے” کا نتیجہ ہے۔ البتہ ان کا علم اور قابلیت ان کے مزاج کو ٹیکنوکریٹ بنادیتی ہے مجھ سمیت ان کے اکثرقریبی دوستوں کو ان سے گلا ہے کہ وہ فون اورمسیجزکےجواب میں غیر معمولی تاخیر کرتے ہیں۔ باقی عام کلائنٹس اور ووڑرز تو چھوڑ ہی دیں اور یہی چیز ان کو عوام الناس سے دور کر دیتی ہےاوران کی دوسری مرتبہ ناکامی کا مؤجب بنی اور اگر وہ شرمندگی کی ہیٹ ٹرک سے بچنا چاہتے ہیں تو ابھی سے سیاست سےکنارہ کشی اختیار کر لیں اور صرف ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر اوورسیزپاکستانیوں کی فلاح و بہبود کی ڈھان لیں۔


دوسری جانب ہمارا ہیرو اور دلہا رانا عبدالستار ۱۰۰% عوامی آدمی ہے۔ آپ رات کو ایک بجے بھی فون کریں تو وہ فورا فون اٹھائیں گے اور اپنے مخصوص اردو، پنجابی سٹائل میں پرتپاک طریقے سے آپ کااستقبال کریں گے، اور اگر آپ مانچسٹر میں ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ وہ پرتکلف کھانے سے آپ کی تواضع نہ کریں۔ ان کا لنگر پورے مانچسٹر میں مشہور ہے، برا ہو اس کرونا کا ورنہ کوئی شام نہیں کہ رانا صاحب آپ کو ومسلو روڈ کے شیشہ کیفے میں دوستوں کے ساتھ قہقہاتےنہ  ملیں۔

ان کاشیخ رشید کا “تھرے والا” سٹائل ہی ان کی پہچان ہے اوروہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ منہ بگاڑ کے انگلش بولنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور آج بھی دوستوں کے ساتھ کھلی ڈلی پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ان کے برادرنسبتی ارب پتی بزنس مین انیل مسرت پورے گورے ہیں۔
رانا صاحب نے حالیہ الیکشنز میں کرونا پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مانچسٹر کی ہوم گراونڈ سے نکلتے ہوئے گلاسگو اور لندن کے متواتر دورے کیے اوریہی بات ان کی کامیابی کاضامن بنی۔


میں نے جب پاکستان سے واپسی پر انہیں پہلا فون کیا اور بتایا کہ وہ گلاسگو سے مانچسٹر آرہے ہیں تو انہوں نے میری مخبری پر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا اور ہمارے ایک اورعزیزدوست اور نو منتخب جنرل سیکرٹری اسلم بھٹہ سے بھی بات کروائی
میں نے راناصاحب کو کہا مقابلہ سخت لگ رہاہے لگتا ہے صفیں درست کرنی پڑیں گی۔
رانا صاحب نے مخصوص انداز میں جواب دیا “مبین یار جے توں کہہ رہیا ایہہ تہ فیرواقعی کرنیاں پینئاں نیں”
بس اس کے بعد رانا صاحب نے اپنی سپیڈ تیز کر دی اور جب انتخابات کی رات میں نے انہیں گلاسگو میں ہی لمبی لیڈ مارنے کی ایڈوانس مبارکباد دی تو انہوں نے مخصوص انداز میں قہقہ مار کے شکریہ ادا کیا۔

ہمیں تو ویسے ہی رانا عبدالستار صاحب کے جیتنے کی اس لیے بے پناہ خوشی ہے کہ پہلے ہی ہمارے یار رانا عبدالستار کا لنگر مانچسٹر میں چلتا تھا اب پورے انگلینڈ کے صدر کے طور پر سارے برطانیہ میں ان کا لنگر عام ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس بھی سیاستدان کا لنگر چلتا ہے اسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :