بات ختم!

جمعرات 21 نومبر 2019

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہمارے معاشرے میں جگت بازی اورتحقیری فقرے کسنے کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔علماء دوسرے علماء کے بارے میں ،سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین ،حکومت اپوزیشن راہنماؤں اوراپوزیشن راہنماء حکمرانوں کے بارے میں تحقیری اورہرطرح کے نفرت انگیز جملے کستے نظرآتے ہیں، دانشورطبقہ اورصحافت میں بھی بلنددرجہ اورمقام اُسے حاصل ہے جوتمسخراورطنزیہ جملے کسنے میں ماہرہے۔

کسے پرواہ کہ ہماری ایسی بات کارد عمل اوراجتماعی معاشرتی رویے پرکیااثر پڑے گا۔ہمیں کبھی خیال نہیں آیا کہ پہلے سے منقسم معاشرہ میں مزیدتقسیم درتقسیم کاعمل شروع ہوجائے گا۔ہمیں توبس اپنے اندربسی تلخی کااظہارکرناہے۔ہم نے کبھی نہیں سوچاایسی آسان مسرت زیادہ پائیدار نہیں ہوتی۔سچ بات تو یہ ہے ،وہ رب ِکریم، ستارالعیوب نہ ہوتا، توہم ایک دوسرے کومنہ دکھانے کے قابل نہ ہوتے۔

(جاری ہے)


ہمارے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں نے ضرورت پڑنے پراپنے ذاتی مفاد کی خاطرمذہب سے علاقائیت اور ذات برادری تک ہر حربہ استعمال کیا۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے محبت اور اخوت کی تعلیم کی بجائے اپنے فرقہ اور عقیدہ کی بنیاد پرتقسیم شروع کردی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا آج ہمیں مذہب سے عقیدت کم اور دوسرے عقیدہ سے خوف زیادہ ہے۔برسوں پہلے بوئے گئے بیج آج تن آور درخت بن چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حق تلفی کے بڑھتے رجحان اورناانصافی نے ہمارے معاشرے کو مزید تقسیم کر کے رکھ دیا۔باہمی روادری اوردوسروں کی عزت کاخیال اک خواب بن کررہ گیا ہے۔
ہم اس قدربدتہذیب ،منہ پھٹ اوراخلاقی طورپرپست ہوچکے ہیں کہ ہمیں کسی چیز،جنس ،جگہ اورمقام کالحاظ تک نہیں رہا۔ہمارا مزاج اورانداز ِفکربگڑکررہ گئے ہیں۔ہم ایک دوسرے کوطعنہ مارتے ہیں، ایک دوسرے پرآواز کستے ہیں ایک دوسرے کوبرے ناموں سے مخاطب کرتے ہیں۔

ہمیں اس اخلاقی پستی اورگراوٹ کا احساس تک نہیں کہ ہماری تباہی اوربربادی کااصل سبب یہی ہے۔یہی رویہ منافرت اورمعاشرے میں بگاڑکا سبب بنتا ہے۔مگرہماری بدقسمتی دیکھیں شہر،گاؤں،گلی محلہ،میڈیا ، پارلیمنٹ تک یہی رویہ ہماری پہچان بن چکا ہے۔حالانکہ انسان کا قداس کے نام، لقب اورعہدے سے بڑانہیں ہوتا بلکہ اس کے کردار اوراخلاق کی وجہ سے بڑاہوتا ہے۔


رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔سوشل میڈیا نے ہمارے پورے معاشرہ کواس قدرمتاثرکیا ہے کہ سوشل میڈیاپرگردش کرتے لطیفے،طنزاورحقارت بھرے موادکی جھلک خاص وعام کی گفتگومیں نظرآتی،یہاں تک کہ حکومتی ارکان کے بیان تک شوشل میڈیاکی مرہون منت ہوتے ہیں۔عام ساانسان بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ الیکڑانک میڈیااور کل کے اخبارات میں ہمارے حکمرانوں بشمول حزب اختلاف کے بیانات کیا آئیں گے۔

اسی طرح کچھ تجزیہ نگارجس سے بغض رکھتے ہیں اُس سے متعلقہ عوامی طنزیہ ٹوئٹس سے نوٹس بنا کرآتے ہیں ،پروگرام کیا،اورچلتے بنے۔بھاڑمیں جائیں اخلاقیات اورقوم کی فکری اورذہنی تربیت ۔ویسے ایک بات ماننی پڑے گی اورکچھ ہونہ ہو،اخلاقی پستی اورگرواٹ کے معاملہ میں پوری قوم ایک پیج پرہے۔ایک دوسرے کی باہمی بے توقیری،تذلیل اوراخلاقیات کی دھجیاں اُڑانے کا وہ سلسلہ شروع ہوا ہے جورُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔


یہاں تک کہ دُشمن کی طرف سے مسلسل سرحدپرجاری فائرنگ ،گولہ باری سے سرحدی علاقوں میں عام شہریوں اوروطن کادفاع کرنے والوں کی روزانہ کی بنیاد پرشہادت کے واقعات ، کشمیر میں انسانی زندگی عذاب،انسانی حقوق کی خلاف ورزی،عورتوں ،بچوں اورنہتے شہریوں پرظلم وستم کی انتہاء کے باوجودخطہ میں امن کا پیامبر بن کردُنیا کے سامنے آنے والا ،خطہ میں جاری تناؤ میں کمی اورحالات میں بہتری کی خاطراورامن کی خواہش کے اظہارکے طورپردُشمن وطن کے گرفتارکئے گئے پائلٹ ابھی نندن کی واپسی، کرتارپورراہدری جیسے باوقار اور دلیرانہ اقدامات کی بنا پراقوام عالم میں عزت وتوقیر پانے، امن وسلامتی ،ترقی،خوشحالی اوربقائے انسانیت کی خاطرشجرکاری سے متعلق عملی کوششوں کی بنا پردُنیا کے مقبول ترین راہنماوں کی فہرست میں امتیازی حیثیت رکھنے والا شخص اپنی عمرکے نصف سے بھی کم عمرسیاسی مخالف کی نقالی اورتحقیر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

حالانکہ اس طرح کی جگت بازی سے جوناراض ہیں مزیدناراض ہوں گے،حکومتی کارکردگی متاثرہوگی۔سب سے خطرناک بات، حکومتی وزراء جن میں سے اکثریت کی کارکردگی بھانڈپنے کے سوا کچھ نہیں،انہیں مزیدشہہ ملے گی۔اپوزیشن کے حکومت کی ناکامی اورنااہلی کے بھرپورپروپیگنڈہ کے باوجودعوام کی اکثریت جووزیراعظم عمران خان کے حامی اور تما م ترمشکلات کے باوجودان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ بھی تذبذب اورشکوک وشبہات کاشکارہوں گے کہ آخریہ سب، کیا ہو رہا ہے۔


 قوموں کے عروج وزوال میں وقت اور حالات کے اعتبار سے اختیار کئے گئے رویے اور طرزِ عمل کا اہم کردارہوتاہے۔کامیابی اورناکامی کاانحصارعوامی احساسات کے ادراک،معاملہ فہمی اور مسائل کے حل کی سعی پرہوتاہے، مگر ہماری سنجیدگی اورمعاملہ فہمی کااندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ایک طرف عوام کی بہت بڑی اکثریت زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے جد وجہد کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف ہمارا حکمران طبقہ مسائل کاحل تلاش کرنے کے بجائے بالکل برعکس صورت حال سے دوچا ر ہے، بغیرکسی حل کے نئے اور مختلف مزیدمسائل۔

چھوٹے چھوٹے پریشان کن مسائل حل کئے جاسکتے تھے،لیکن شایدحکمران طبقہ کے لئے اہم نہیں اور جو حکمران طبقہ کی نظر میں اہم مسائل حل ہیں انہیں حل کرنے کے صلاحیت نہیں، وسائل نہیں،ادارے ساتھ نہیں،بات ختم۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :