طیارے کا روحانی باکس کھل گیا؟

جمعرات 28 مئی 2020

Muhammad Farooq Khan

محمد فاروق خان

پی آئی اے کی ایئر بس8303 کے حادثے کے متعلق اطلاعات منظر پر آ رہی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ پائلٹ کی غفلت اور ایس او پیز فالو نہ کرنے کی وجہ سے طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔پی آئی اے کے ڈی جی پبلک ریلشنز کا کہنا ہے کہ تحقیقات سے پہلے کچھ کہنا قیاس آرائی توہو سکتی ہے لیکن وئہ بات حتمی نہیں ہو گی۔
کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کی گفتگو منظر عام پر آ چکی ہے جس میں کنٹرول ٹاور نے پائلٹ کو طیارے کی بلندی اور سپیڈ کو کم کرنے کو کہا جس پر پائلٹ نے جواب دیا کہ وئہ سنبھال لے گا۔

اور پھر پائلٹ نے لینڈنگ کی کوشش کی لیکن پھر طیارے کو دوبار لینڈنگ پر کنٹرو ل ٹاور 3000 فٹ کی بلندی پر رکھنے کو کہتا ہے لیکن طیارہ2000 فٹ کی بلندی تک جا کر1800فٹ نیچے آجاتا ہے جس پر کنٹرول ٹاو ر پائلٹ کو کم بلندی کی وارنگ دیتا ہے۔

(جاری ہے)

اچانک انجن فیل ہونے کی اطلاع دیتا ہے پھر کنٹرول ٹاور کومے ڈے کی کال موصول ہوتی ہے ا ورجہازنقشے سے غائب ہو جاتا ہے۔

آخری اطلاعات تک کپتان نے لینڈنگ کرتے ہوئے جہاز کے گیئر کو ڈاون نہیں کیا طیارے کے پہلے انجن کو رگڑ لگی اس کے بعد دوسے انجن نے رگڑ کھائی بعد میں کپتان نے دونوں انجن رگڑتے ہوئے طیارے کو اوپر کی جانب اٹھایا کپتان نے طیارے کو گراؤنڈ کیا طیارہ تیرہ منٹ فضا میں رہا جس کے بعد زمین پر گر کر تباہ ہوگیا۔
 عینی شاہدین کے مطابق طیارہ گرنے سے پہلے بائیں جانب جھکا طیارے کی دم پہلے زمین سے ٹکرائی جس سے طیارے کا زور ٹوٹ گیا۔

حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کا پائلٹ تجربہ کار تھا۔گرنے والا طیارہ صرف ۱۰ سال پرانا تھا اور اچھی حالت میں تھا۔ ایئر بس کمپنی کے طیارے جب اترنے لگتے ہیں تو اس عمل میں پائلٹ کا رول کم ہو جاتا ہے اور خودکار نظام پرزیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔اس حادثے میں انسانی غلطی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی خبروں میں اس حادثے کی ذمہ داری پائلٹ پر ڈالی جا رہی تھی۔

تحقیقات اور بلیک باکس کی ڈی کوڈنگ سے اصل حقائق سے آگاہی ہوگی کہ آ خری تیس سیکنڈ میں کیا ہوا ،کاک پٹ میں طیارے کو بچانے کے لیئے کی جانی والی کوششوں کو جانا جا سکے گا۔آخری لمحات کی گفتگو کو سی وی آر سے سنا جا سکے گااور طیارے کے مسافروں کے ان اذیت ناک لمحوں کے درد کو محسوس کیا جا سکے گا۔پائلٹ نے یقیناً اپنے تجربے کی اساس پر پوری کوشش کی ہوگی پائلٹ کی کوشش کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اس کی زندگی بھی طیارے کی سلامتی سے ہی مشروط تھی۔

رات کو خواب میں مجھے روحانی باکس کھول کر طیارے کے متعلق وڈیو دیکھائی گئی جوکہ انتہائی حیرت انگیز اور عجیب بھی تھی اس میں دیکھایا گیا کہ اس طیارے کی مینوفیکچرنگ سے لیکرپاکستان کی خریداری کرکے اسے پی آئی اے میں شامل کرنے تک اس طیارے کا آخری مقصد ان موت کے مسافروں کو لاہور سے کراچی جائے حادثہ پر وقت مقررہ پر پہنچانا تھا۔یہ طیارہ موت کے اہداف کی تکمیل کے لیئے ایک ٹول تھا۔

اس وڈیو میں بتایا گیا کہ جس طرح انسانوں کی موت کا وقت جگہ اور مرنے کی وجہ اور کیفیت مقرر ہے اس طرح مادی اشیاء کے فنا ہونے کا وقت بھی متعین ہے۔اس میں جن مسافروں کو وقت مقررہ پر پہنچنے سے اس لیئے روکا گیا کیونکہ ان کا نام اس طیارے کے ذریعے مرنے والوں کی لسٹ میں نہیں تھا اور ان کی جگہ ان لوگوں کو طیارے میں سوار کرایا گیا جن کا نام اس لسٹ میں موجود تھا۔

یہ طیارہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیئے مکمل طور پر روحانی حصار میں تھا۔ ایر ہوسٹس کا نام اس موت والی لسٹ کے مطابق کرنے کے لیئے تبدیل کیا گیا اور موت کو مطلوبہ ایئر ہوسٹس کو طیارے میں سوار کرایا گیا۔ طیارے کی فضائی میزبان انعم خان کے چچا کمال خا ن کا کہنا ہے کہ شاید قدرت نے انعم خان کے لیئے یہی لکھا تھا موت اس کے تعاقب میں تھی جو اس کو کھینچ کر لاہور سے کراچی حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں لے گئی تھی۔

ا س روحانی وڈیو میں دیکھایا گیا کہ دو افراد کی زندگی کی حفاظت کی ذمہ داری موت کو سونپی گئی ۔
پہلے منظر نامے میں طیارے کو بچا کر مسافروں کو با حفاظت اتارنے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسرے روحانی منظر نامے میں طیارے کو وقت مقررہ پر مطلوبہ جگہ پہنچانے اور ان کی ارواح کو قبضے میں لینے کا مشن تھا۔اپ سوچیں کپتان کی غلطی اور طیارے کی تکنیکی خرابی کے بغیر طیارہ موت کی وادی تک کیسے پہنچتا۔

انسانی غلطیوں اورتکنیکی خرابیوں نے اس روحانی مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔صرف جاندار ہی نہیں بلکہ بے جا ن ،مشینری اورسائنس بھی روحانی تصرف میں رہتی ہیں۔کائنات کی ہر شے روحانی حصار میں ہے۔تصور کریں کہ حادثے کے آخری تیس سیکنڈ میں جہاز کے کپتان جہاز کے عملے اور مسافروں پر کیاگزری ہوگی؟ عزراعیل جب کاک پٹ میں موجود ہوں تو کپتان اپنے فیصلے کیسے کر سکتاتھا اور اپنے حواس میں کیسے رہ سکتا تھا؟ 
مستقبل میں فضائی سفر کو اور زیادہ محفوظ بنانے کے لیئے حادثے کی تحقیقات یقیناً سود مند ہوں گی لیکن موت کسی حفاظتی حصار کو خاطر میں نہیں لاتی ۔ تقدیر دراصل روحانی پروگرامنگ ہے جب جب جو جو ہونا ہے تب تک سو سو ہوتا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :