صحافتی کھوکھر محل

پیر 22 فروری 2021

Muhammad Farooq Khan

محمد فاروق خان

تعریف کرنا مثبت عمل ہے اس سے حوصلہ ملتا ہے، اعتماد بحال ہوتا ہے اور کام کی تصدیق ہوتی ہے۔لیکن خوشامد بھی کمال کا فن ہے جس سے اہل ہنر مفادات کے راستے نکالتے ہیں۔خوشامد کے جال سے طاقتور اور مالی لحاظ سے فربہ مچھلیوں کا شکار آسان ہو جاتا ہے۔کچھ احباب اس فن میں یکتا ہیں۔خوشامند پسندی بیمار ذہنوں کی مرغوب غذا ہوتی ہے وئہ بے جاہ تعریف کو حق سمجھ لیتے ہیں اور حق کی صدا دینے والے اُن کو بد ترین دشمن دکھائی دیتے ہیں۔

خوشامند پسند ی کے ذریعے مفاد پرستی حاصل کرنے والوں کے فعال نیٹ ورک کے سامنے دل کی بات کرنے والے ہمیشہ نا پسندیدہ رہے ہیں۔میں اگر خوشامد کی کوشش کر بھی لوں تو جن حروف کا میں عامل ہوں وئہ دسترس میں ہی نہیں رہتے ،وئہ خوشامد پر آمادہ ہی نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہمیشہ ناپسندیدگی والی لسٹ میں ہی نام رہا۔

(جاری ہے)

تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مرحلے پر زیادہ دیر ٹھہر نے والوں کو نشان عبرت بنا یا جاتا رہاہے۔


 میں گذشہ دنوں سوشل میڈیا کا شکریہ ادا کرکے اپنی زندگی کے باقی دن سماجی بھلائی کے لیئے وقف کرنے والا تھا لیکن اب پہلے میں ان احباب کا شکریہ ادا کروں گا جنہیں آنکھوں سے معذور اور بینائی سے محروم شخص کا ڈیکلریشن لینے کی جلدی ہے۔ انہوں نے اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کیا ورنہ میں انہیں ڈیکلریشن میں اپنی دو آنکھیں بھی گفٹ کردیتا۔ہر کسی کا مقابلہ ہو سکتا ہے لیکن بے غیرت اورکم ظرف کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔

ا یک آنکھ تو نور کی نعمت سے محروم ہو گئی ہے کوئی خبر نہیں کہ دوسری چشمِ بینا کو کتنی مہلت میسر ہے ؟کئی سالوں سے حالتِ صبر میں ہوں جب یہ نور واپس لے لیا جائے گا تو میں حالتِ شُکر میں داخل ہو جاوں گا،آنکھوں کا نور ہی واپس نہیں ہونا ابھی تو مستعار سانسوں کی واپسی کے مرحلے سے بھی گزرناہے۔پا کستان میں تبدیلی کے تخلیق کار وزیر اعظم عمران خان کوپوسٹ کیا گیا خط آپ احباب کے نام ۔


 جب ڈپٹی کمشنر چکوال کے عملے کی طرف سے میری ٹیلیفونک تلاش میں شدت آئی تو میرا گمان تھا کہ میرِ ریاست کو خبر ہو گئی ہے کہ اُن کی ریاستِ مدینہ میں کوئی قلمکار آنکھوں سے معذور ہے،جس کی دونوں انکھیں2008 سےlaucoma G( کالا موتیا) سے متاثر ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک آنکھ کی بینائی مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے دوسری آنکھ کا بھی اپریشن ہوا ہے۔اُسے کسی دوسرے ملک میں علاج کے لیئے بھیجا جائے۔

یا میرے نام کا کوئی ہیلتھ کارڈ ڈپٹی کمشنر چکوال کے پاس پہنچ گیا ہے جو مجھے بر وقت پہنچانا چاہتے ہیں کیونکہ آ پ کی حکومت احساس پروگرام سے اپنے شہریوں کو مستفید کر رہی ہے۔آپ بذات ِخود اور آپکی حکومت بھی انسانی ہمدردی سے سرشار ہے۔آپ کی انسانی ہمدردی کو دنیا نے دیکھا جب آپ نے اپنے سیاسی مخالف،والیم10کے ثبوتوں کے حامل قیدی نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کے لیئے وسائل فراہم کیئے۔

آپ کی کابینہ بھی دکھی اور رنجیدہ تھی۔قومی اسمبلی میں بیٹھی شریں مزاری کی آنکھوں میں ہمددردی سے آنسو آ گئے تھے ایسے انسان دوست اور انسانی ہمدردی کرنے والے وزیراعظم سے میرا ایسا گمان کرنا تو بنتا ہے۔ ایوانِ سیاست کے قبضہ گروپ جب ریاست کو ماں جیسا کہیں گے تو لازم ہے کہ اس میں بسنے والے اُسے ماں جیسا ہی سمجھیں گے۔
انسانی ہمدردی والی حکومت کا سحر اُس وقت ٹوٹا جب انفارمیشن افس چکوال سے مجھے ڈاریکٹ فون آیا کہ آپ چکوال آکر شو کاز نوٹس وصول کریں۔

تین دن کی مہلت کا نوٹس تھا ایک دن تو گھر واپس جاتے ہوئے ختم ہو گیا۔دوسرے دن میں نے آنکھوں کے معائینے کے لیئے راولپنڈی جانا تھا۔ میں اُسی دن ہی جواب دے دیتا میں نے کونسا پاکستان بیچا تھا؟لیکن جس طرح ایمرجنسی میں میری تلاش اور جنگی بنیادوں پر جواب طلبی ظاہر کر رہی تھی کسی طاقت ور کو ضلع چکوال کی صحافت کو کنٹرول کرنے کا مشن دیا گیا ہے ۔

یقیناً میرا (پریس رپورٹ )کا ڈیکلیریشن کسی کو مطلوب ہے اور اس کا ڈیکلریشن کینسل کیئے بغیر کسی( اپنے آدمی )کو نوازا نہیں جا سکتا۔پورے پنجاب اور سارے چکوال میں صرف ایک ڈیکلیریشن ہی حکومت کے لیئے مسلہ کیوں بنا ہوا ہے؟ کوئی مہلت نہیں ملی کوئی،کوئی وارننگ نہیں دی گئی قانون کا گھیرا تنگ کیوں ہو گیا؟ قانون کے متعلق ایک فلسفی نے کہا تھا کہ قانون بیک وقت امن کی دیوی اور غضب کا دیوتا ہوتا ہے۔

طاقت ور اسے پاوں کے نیچے دیکر اُس کے اوپر کھڑا ہو جاتا ہے اور قانون اچھے بچے کی طرح خاموش رہتا ہے لیکن کمزور، شریف اور مخالف کے لیئے ہر وقت غضبناک اورخوفناک رہتا ہے اسے بلا وجہ اور بلا ضرورت اپنا شکار بنائے رکھتا ہے۔
وزیراعظم کرپشن صرف مالیاتی نہیں ہوتی اختیاراتی بھی ہوتی ہے۔قانون کی کرسی پر بیٹھے ہوئے صاحبِ اختیار کی مرضی پر جب قانون آ جاتا ہے تو اس قانون کی آڑ میں کسی کو نشان ِعبرت بنا دیتا ہے اور کسی کو مستفید کر دیتا ہے۔

وزیر اعظم اس ملک کا مسلہ نواز شریف اور زرداری نہیں ہے اس ملک کی بقا نظام بدلنے میں ہے۔آپ کے اہدا ف کا پہلا ہدف نظام کی تبدیلی تھا۔کیونکہ نظام کو بدلے بغیر اس ملک کی تقدیر نہیں بدلی جا سکتی۔یہاں قانون کا نفاذ کرنے والے خود جوابدہی اور احتساب کے عمل سے باہر ہو گئے ہیں وزیراعظم آپ اپنے وسیم پلس سے تو پوچھیں کہ کیا پنجاب میں صحافتی ایمر جنسی لگا دی گئی ہے۔

کیا سب غیر فعال ڈیکلریشن ختم کر دیئے گئے ہیں؟بات صرف ایک ڈیکلریشن پر ہی کیوں ٹھہر گئی ہے۔میرا ڈیکلریشن کوئی صحافتی کھوکھر محل تو نہیں ہے جسے گرانا آپ کی حکومت پر لازم ہوگیا ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی دوسری سالگرہ پر میری نثری نظم شائع ہوئی تھی اگر آپ کے اقتدارکے نصف النہار پر (کیا انقلابِ اصغر) کی جگہ( تبدیلی) پڑھا جائے تو وزیراعظم حالات تو تبدیل نہیں ہو سکے؟
امامِ عدل
فرصت ملے تو
کسی اعتزاز سے
کسی کُرد سے
پوچھنا کہ
کربلائے انصاف میں
سکوتِ شامِ غریباں ہے کیوں؟
نا انصافی کے یزید
بے بس اور کمزوروں کے ہی سر
فیصلوں کے نیزوں پہ
اٹھائے پھرتے ہیں کیوں؟
طاقت کے فرعون
آج بھی معتبر
کمزور آج بھی
محفوظ نہیں
کیا انقلابِ اصغر (تبدیلی)
سراب تھا
اجتماعی دھوکھا تھا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :