”غلام قوم“

جمعہ 30 اپریل 2021

Muhammad Hamza Zahid

محمد حمزہ زاہد

90 سال غلامی کے بعد ہماری آزادی کی جدوجہد میں دو قومی نظریے کے تہت 14 آگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا جس کا مطلب تھا کے مسلمان ایک علحدہ اور آزاد قوم ہیں اور اس آزادی کے سفر میں ہم نے لاکھوں قربانیاں دیں۔
ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کئے آج 74 سال کا عرصہ گُزر چُکا ہے لیکن دیکھا جائے تو ہم آج بھی اُن کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے وہ غلامی چاہے جسمانی ہو یا ذہنی۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہے تو آزاد، اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنا لباس لیکن ہمیں اتنا فخر اپنے لباس پہننے یا اپنی زبان بولنے میں نہیں ہوتا جو ہم غیر ملکی چیزوں پر محسوس کرتے ہیں۔
ہمارے لباس کی بات کی جائے تو پینٹ شرٹ پہننے والے کو ماڈرن اور شلوار کمیز پہننے والے کو عموماً پینڈو ہی سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہم نے اپنا قومی لباس صرف مزہبی تہواروں کے لئے رکھا ہے۔

اور جہاں تک زبان کی بات ہے تو ہمارے ہاں انگریزی بولنے والے کو پڑھا لکھا جبکہ انگریزی کی سامنے اردو بولنے والے کو ان پڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے وہ حکومتی ادارے جہاں قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہماری نوجوان نسل کو بھرتی ہونے کے لیے اردو سے زیادہ انگریزی زبان پر روانگی کو ترجیح دینا پڑتی ہے۔ کیا وقت آگیا ہے کہ کوئی اُردو زبان کا لفظ سمجھانے کے لیے ہمیں اُس کا انگریزی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔


ہماری میٹرک تک تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک تمام کتابیں انگریزی میں شائع  کی جاتی ہیں، جہاں تک اعلی تعلیم کی بات ہے تو انگریزی زبان میں شائع کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن کیا میڈل اور پرائمری جماعتوں کی کتابوں کو اُردو میں شائع کرنا طالب علم کے لیے زیادہ مناسب نہ ہوگا؟
انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی ہرج نہیں ہے ضرور سیکھنی چاہئے لیکن اپنی قومی زبان پر گرفت ہونا بھی لازم ہے اور غیرملکی زبان کو اپنی زبان پر ترجیح دینا درست نہیں۔

آج کل لوگ زیادہ تر آپ کو آپکی زبان سے جج کرتے ہیں اور محض ایک زبان کی وجہ سے کسی شخص کی ذہانیت اور قابلیت پر شک کرنا ناانصافی ہوگی۔   
ہمیشہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے طورطریقے اور ثقافت پر فخر محسوس کریں اور ان کو کم تر نہیں سمجھیں۔ چین ہمارے سامنے زندہ مثال ہے، چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے۔ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوتی جو خود پر دوسروں کو ترجیح دے۔
یہ لباس یہ زبان ہماری پہچان ہے۔ خُدارا اپنی پہچان مت بھولیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :