”کورونا وائرس اور پاکستان کا تعلیمی نظام“

جمعہ 4 جون 2021

Muhammad Hamza Zahid

محمد حمزہ زاہد

دسمبر 2019 میں آج سے تقریباً 1.5 سال پہلے کرونا وائرس اس دنیا پر ایک عذاب بن کر آیا جو دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا اور ایک جان لیوا بیماری ثابت ہوا جس سے دن بہ دن اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ وبا نہ صرف بڑی سے بڑی معیشت پر بھاری پڑی بلکہ پوری دنیا کا تعلیمی نظام بھی اس سے بہت متاثر ہوا۔ جیسے پوری دنیا میں اس وبا کی وجہ سے تعلیم پر بُرا اثر پڑا ویسے ہی پاکستان کا تعلیمی نظام بھی اس سے متاثر ہوا ہے اور تمام تعلیمی اداروں کو فوری طور پر بند کرنا پڑا۔

پاکستان میں سب سے پہلے مارچ 2020 میں تمام تعلیمی اداروں کو وقتی طور پر بند کیا گیا جوکہ ستمبر 2020 میں دوبارہ کھولے گئے اور تب سے اب تک سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز  کے بند کرنے اور دوبارہ کھولنے کا سلسلہ جاری ہے جس کا تعلیم پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔

(جاری ہے)


جب مارچ میں تعلیمی اداروں کو بند کیا تو اس کے متبادل میں آن لائن تعلیم کا اغاز کیا گیا جو وقتی طور پر ایک مفید فیصلہ تھا تاکہ بچوں کی تعلیم اثر انداز نہ ہو اور وقت کے ضیاء سے بچا جا سکے، لیکن یہ عارضی اقدام تھے جس کے فوائد کے ساتھ ساتھ بہت سے نقصانات بھی ہیں۔

ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ جو چیز ہم سکول، کالج یا یونیورسٹی میں بہتر سیکھ سکتے ہیں وہ ہم آن لائن کلاسز میں نہیں سیکھ سکتے، اُس کی سب سے بڑی وجہ وہ ماحول ہے جو ہمیں کمرہ جماعت میں ملتا ہے۔
ہمارے ملک کی 63 فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جس کی وجہ سے بہت سے ایسے گاوں ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رسائی شہروں کی نسبت بہت کم ہے اور جہاں ہے وہاں بھی کچھ خاص اچھی نہیں اُس کا نقصان یہ ہے کہ ہمارے بہت سے طالب علم ہیں جن کو انٹرنیٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کچھ طالب علم ہیں جو اپنے گھروں سے روزانہ نکل کے ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں سگنل آتے ہوں اور وہ کلاس لے سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی صورتحال میں پاکستان کے ہر علاقے میں انٹرنیٹ کی رسائی کو فری اور فوری ممکن بنایا جائے تاکہ ایسے وقت میں کسی طالب علم کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بہت سے طالب علم ایسے ہیں جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت سی سہولیات سے محروم ہیں، جن کے پاس لیپ ٹاپ یا پھر انٹرنیٹ کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں، اِن کا خواب جلد از جلد اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے والدین کا سہارا بننا ہے، جن کی زندگیاں اس عالمی وبا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کے جب تک اس بیماری کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا اور تمام طلبہ کی ویکسینیشن نہیں ہو جاتی ہمارے پاس گھروں میں رہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں ویکسین لگانا شروع ہو چکا ہے امید ہے جلد تمام تعلیمی ادارے کھول دئیے جائیں گے تب تک تمام طلبہ کو چاہیے کہ اس وقت کو ضائع نہ کیا جائے، جتنا زیادہ ہو سکے اس وقت کو کار آمد بنایں اور مطالعہ کے ضریعے اپنے علم میں اضافہ کریں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں جلد سے جلد اس آفت سے نجات دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :