”نیا پاکستان“

ہفتہ 8 مئی 2021

Muhammad Hamza Zahid

محمد حمزہ زاہد

ہمارے ملک میں ہمیشہ سے یہی تو ہوتا آرہا ہے کہ الیکشن سے پہلے سب اُمیدوار بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں عوام سے خوب وعدے کرتے ہیں اور طرح طرح کے خواب دیکھاتے ہیں پھر اقتدار میں آنے کے بعد نہ جانے وہ سب باتیں کہاں جاتی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ویسا ہی ہوا، نیا پاکستان بنانے کے ارادوں کے ساتھ، ریاستِ مدینہ کے خواب اور ڈھیروں وعدوں کے بعد جب 22 سال کی جدوجہد کے نتیجے میں آخر کار اقتدار ملا تو پھر وہی سب ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔


آج نئے پاکستان بنے 2.5 سال گُزر چُکے ہیں وہ نیا پاکستان جس میں غربت کا خاتمہ ہونا تھا، ظلم ختم ہونا تھا، پولیس کے محکمے میں بہتری آنی تھی، ایک کروڑ نوکریاں ملنی تھیں، 50 لاکھ گھر بننے تھے اور وغیرہ وغیرہ۔
بحرحال پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے کچھ کارناموں کی بات کی جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت میں معیشت کچھ بہتری کی طرف آئی تھی مگر پھر کورونا وائرس کے باعث معیشت متاثر ہونا شروع ہو گئی۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی تھی کہ وزیراعظم نے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا جو پہلے کسی دورِ حکومت میں نہیں ہوا تھا۔ تجزیہ کار فرخ سلیم کے بقول “تجارتی خسارہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 20 ارب ڈالر تھا جو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں 10 ارب ڈالر تک لایا گیا اور اب یہ خسارہ تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

جو ایک بڑی کامیابی ہے۔”
اگر ناکامیوں کی بات کریں تو میرے خیال سے موجودہ دورِ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی مہنگائی میں اضافہ ہے جو کرونا کے اس مشکل وقت میں غریب آدمی کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ صورتِ حال  ناقابلِ برداشت ہے، اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریب آدمی مر رہا ہے۔

رمضان کے اس بابرکت مہینے میں بھی موجودہ حکومت مہنگائی میں کمی لانے میں ناکام رہی ہے۔ قیامت تو یہ ہے کہ آٹا اور چینی جیسی چیزیں لینے کے لیے بھی عوام کو لائن میں لگنا پڑ رہا ہے اور لائن میں لگنے کے بعد کئی گھنٹے کھڑے ہونے کے باوجود بھی ایک یا دو کلو چینی سے زیادہ لینے کی اجازت نہیں وہ بھی شناختی کارڈ دیکھا کر۔ کیا یہ تھا وہ نیا پاکستان جس کے خواب دیکھاے گئے تھے؟  
کب تک یہ موجودہ حکومت اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو ٹھہراتی رہے گی۔

کب تک حکومت اپنی ناکامیوں کو چُھپانے کے لیے گزشتہ نااہل حکمرانوں کی کرپشن کا ذکر کرتی رہے گی؟ غریب آدمی کو ملکی قرضوں اور خسارے سے کوئی غرض نہیں اُسے بس روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی قیمتوں سے غرض ہے اور اس حساب سے دیکھا جائے تو گزشتہ دورِ حکومت کے اختتام پر آٹے کی قیمت 32 روپے فی کلو تھی جو اب 50 روپے سے بھی زیادہ ہے اور چینی کی قیمت جو 55 روپے فی کلو تھی وہ آج تقریباً 100 روپے ہے۔ ڈالر جو آج سے دس سال پہلے 85 روپے تھا وہ آج 152 روپے ہے۔
عمران خان کے گزشتہ الیکشن میں کامیابی کا باعث غریب اور مڈل کلاس لوگ تھے جو تبدیلی چاہتے تھے، اور اگر مہنگائی کی یہی صورتِ حال رہی تو کیا تحریکِ انصاف کی حکومت آنے والے الیکشن میں کامیاب ہوسکے گی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :