
پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری
ہفتہ 9 اکتوبر 2021

محمد ابراہیم عباسی
ہم بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستانی ڈرامے پوری دنیا میں مشہور ہیں پوری دنیا پاکستانی ڈراموں کو پسند کرتی ہے۔ اُس وقت پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری بڑے اداکاروں اور فنکاروں سے بھری تھی۔ جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرتے ہوئے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا بھی پوری دنیا میں نام روشن کیا۔ اگر آج بھی ہم اس وقت کے اداکاروں کی پرفارمنسز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بس اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان اداکاروں کی کام کرنے کی لگن انرجی اور محنت قابلِ ذکر ہے۔ کئی فنکاروں کو انکی ناقابلِ فراموش خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی سول اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ بہت سے فنکاروں نے بیرونی ممالک میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ، پاکستان کا نام روشن کیا اور بہت سے اعزازات اپنے اور ملک کے نام کیے۔
(جاری ہے)
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت اور دور حاضر کے ڈراموں اور فلموں میں بہت فرق ہے۔
دوسری طرف اگر آج کی پاکستانی انڈسٹری کی بات کریں تو وہ معیار نظر نہیں آتا جو کہ پروانے ڈراموں میں ہوا کرتا تھا۔ فحاشی نے انڈسٹری میں سکونت اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی بھی فلم یا ڈرامہ نامکمل ہے جب تک اس میں فحاشی نہ ہو اور یہ ہی معاشرے اور فیملی سسٹم کو نقصان پہنچانے کی اصل وجہ ہے۔ بنیادی طور پر انڈسٹری نام ہی فحاشی کا ہے۔
سب سے برا اثر جو ان ڈراموں کا معاشرے پر پڑا ہے وہ فیملی سسٹم میں بگاڑ ہے۔ مثلاً ساس کو ایک منفی کردار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس قدر بدنام کر دیا ہے جیسے کہ وہ ظالم اور جابر ہے کہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی بھی لڑکی یا لڑکا آپس میں مراسم رکھتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ ڈرامے یا فلم میں اگر ہو سکتا ہے یہاں کیوں نہیں ۔ اسی طرح ہمارے سوچ میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کے پیچھے بھی ان ڈراموں کا ہی ہاتھ ہے۔ مثلاً کسی ڈرامے میں کو لڑکی پینٹ شرٹ میں ملبوس ہے تو ظاہر ہے وہ عام لڑکی کے لیے ایک اعلیٰ لباس ہو گا پھر وہ بھی اس لباس کو اپنا لے گی۔ یاد رہے پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی ایک وجہ یہی ڈرامے ہیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جو زیادہ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔
اچھا ان ڈراموں کا مواد یا کہانیاں بہت عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک لڑکی ہے اسکی زبردستی شادی ہوتی ہے اور سسرال جا کر اسے اپنے سسر سے محبت ہو جاتی ہے پھر ان دونوں کا افیئر چلتا ہے۔ آپ ذرا خود سوچیں اس طرح کا مواد جب ٹیلی ویژن پر دیکھایا جائے گا تو معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟ اس طرح کے ڈرامے چلانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا تاثر پڑے گا ان کا آنے والی نسلوں پر؟
دیکھا جائے تو اس سب میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں ہمیں ان کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے نہ کہ ہم ان کو پرموٹ کریں۔
آج کے اداکاروں ،فنکاروں اور پروڈیوسرز سے درخواست ہے کہ ملکی اور معاشرتی اقدار کو نظر میں رکھتے ہوئے ڈرامے بنائیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ ایسے ڈرامے یا فلمیں بنانے میں انڈسٹری کی رہنمائی کرے جو معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کریں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ابراہیم عباسی کے کالمز
-
سماجی میڈیا اور معاشرہ
اتوار 19 دسمبر 2021
-
نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی مایوسی
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
صفائی نصف ایمان کیوں ہے؟
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی ذہن مغربی دنیا کےغلام
منگل 7 دسمبر 2021
-
بڑھتی ہوئی بے روزگاری، فقیر طبقہ اور ہوٹل ازم
پیر 11 اکتوبر 2021
-
پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
کشمیر کی نظریاتی سیاست؟
منگل 28 ستمبر 2021
-
مظلوم نوجوان نسل!
ہفتہ 10 جولائی 2021
محمد ابراہیم عباسی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.