سماجی میڈیا اور معاشرہ

اتوار 19 دسمبر 2021

Muhammad Ibrahim Abbasi

محمد ابراہیم عباسی

 جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے۔ مشہور ہونے کے غرض بہت سے لوگ منظر عام پر آئے۔ سوشل میڈیا پر ہر انسان اپنی رائے کا اظہار باآسانی کر سکتا ہے۔ بعض دفعہ کسی انسان کی رائے کو اتنی مقبولیت ملتی ہے کی مختصر سے عرصے میں وہ ایک سلیبرٹی بن جاتا ہے۔ انٹرنیٹ نے بہت ساری مشکلات کو آسان بنایا ہے۔سوشل میڈیا جیسا کہ ٹوئٹر ، فیس بک، انسٹا گرام ،ٹک ٹاک اور یوٹیوب وغیرہ مشہور ویب سائٹس ہیں۔

یہی بہت سی آسانیوں کی وجہ ہیں۔ مختلف اپلیکیشنز مختلف کام کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹویٹر پر اپنی مختصر رائے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جو کہ بڑی کارامد سمجھی جاتی ہے۔ انسٹا گرام اور فیس بُک تصاویر شیئر کرنے کیلیے استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ٹِک ٹاک اور یوٹیوب ویڈیوز شیئر کرنے کیلیے استعمال ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ دونوں ویپ سائٹس یا اپلیکیشنز پیشہ کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

ان سے بہت کچھ اچھا سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ نوجوان نسل اپنے قابلیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد مقبولیت حاصل کرتی ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے رول ماڈل بنتے ہیں جو کہ خوش آئین بات ہے۔ بہت سے ایسے کانٹینٹ دیکھنے کو ملتے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوتے۔ کیٔ ایسی چیزیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نہیں دیکھا سکتا لیکن سوشل میڈیا دیکھاتا ہے۔


سوشل میڈیا ایک پل کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ جیسا کہ سیاستدان کا ووٹرز کے درمیان ، تاجر کا گاہک کے درمیان ، تعلیمی اداروں کا طالب علموں کے درمیان، مختلف این جی اوز کا متعلقہ لوگوں کے درمیان، حکومت کا شہریوں کے درمیان اور ایک سلیبرٹی کا اس کے مدّعا کے درمیان۔ یہ سوشل میڈیا کی مثبت تصویر پیش کی گئی۔ سوشل میڈیا کے بہت سے منفی پہلو ہیں۔

بعض اوقات بے گناہ کو بلا وجہ سوشل میڈیا پر ذلیل کیا جاتا ہے اور کبھی مجرم کو ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا نے خاندانی نظام کو بھی بہت نقصان پہنچایاہے۔ آج کے دور کا شخص سوشل میڈیا پر اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ والدین کے لیے وقت نہیں والدین کے پاس اولاد کے لیے وقت نہیں۔ سوشل میڈیا پر غیر ضروری مواد کی موجودگی نوجوان نسل پر منفی اثرات کا ذریعہ ہے۔

مغربی ثقافت کی دیکھا دیکھی میں اپنے ثقافت جنازہ نکال رہا ہے۔ جسمانی وذہنی صحت میں خرابی کی وجہ بھی سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہے۔
 کتابوں کی مقبولیت میں کمی مطالہ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل میڈیا کا سب سے منفی پہلو انسانی جانوں کا نقصان ہے ۔ کوئی ایڈونچر ،کوئی تصور اور کوئی ویڈیو بنانے کے چکر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

سیکڑوں لوگ سوشل میڈیا کے بے معنی ٹرینڈز اور جھوٹے الزامات جو اساسِ کمتری اور ذہنی دباؤ کا ذریعہ بنتے ہیں کی وجہ سے اپنی جان خود لینے پر مجبور ہوئے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے پہلی خودکشی فرانس کے شہر پیرس کی ایک لڑکی نے کی جسکا نام اوکانے ایبیم اور عمر اٹھارہ سال تھی۔ ریسرچ کے مطابق ایک سال بعد تقریباً دس لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2020 میں تقریباً 1.54 ملین افراد خودکشی کریں گے۔
سوشل میڈیا کا استعمال ہمارا حق اور مثبت استعمال ہمارا فرض ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :