نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی مایوسی

جمعہ 17 دسمبر 2021

Muhammad Ibrahim Abbasi

محمد ابراہیم عباسی

اس ملک میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو سب سے پہلی تلقین روشن مستقبل کے لیے محنت کرنے کی جاتی ہے۔وہ روشن مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ہی محنت کا آغاز کرتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔ یہ خیالات اور نظریات اتنے اساس ہوتے ہیں کہ ذرا سی بھی غلطی یا لاپرواہی اتنی شدید نقصان دو ہوتی ہے یہاں تک کہ زندگی کا ضیاع بھی ممکن ہے۔ پاکستان میں کئی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں بچوں نے اپنی زندگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔


بدقسمتی سے ہمارے پرائمری سے انٹرمیڈیٹ تک پڑھائی جانے والی تاریخ اور دوسرے نصاب میں کئی غلطیاں ہیں جن کا خاتمہ اور درستگی ناگزیر ہے۔ جو کہ اب بہت مشکل ہو چکا ہے۔
جب کوئی بھی ملک اپنا تعلیمی نظام مرتب کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے اور ایسا نظام مرتب کرتا ہے جو حقیقت پر مبنی ہو اور قوم کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جس سے ملک کے روشن مستقبل کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں جب ملک آزاد ہوا تو اس وقت انگریزوں کا بنایا ہوا تعلیمی نظام پورے ہندوستان میں رائج تھا ۔ بدقسمتی سے 74 سال بعد بھی پاکستان کے تعلیمی نظام میں کی گئیں اصلاحات ناکافی اور بے سود ہیں۔ 2017 کے سروے کے مطابق پاکستان میں پڑھے لکھے لوگ تقریباً 59.13 فیصد ہیں لیکن پھر بھی نوجوان نسل ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔

مطلب یہ کہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ بےروزگاری کا شکار ہیں۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو آنے والی نسلوں کو پڑھائی کی طرف مائل کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ پڑھائی سے زیادہ اہمیت روزگار کو دیتی ہیں۔ ظاہر ہے جب پڑھے لکھے لوگ بےروزگار ہونگے تو آنے والوں کے لیے بڑا چیلنج روزگار کا حصول ہی ہو گا۔  
ڈاکٹری اور انجینئرنگ کو دوسرے پیشوں کی نسبت پاکستان میں زیادہ منافع بخش اور قابلِ عزت پیشے تصور کیا جاتا ہے۔

لیکن جو بھی یہ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اسکے بعد وہ بےروزگاری کا سامنا کرتے ہیں، کچھ میرٹ پر نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ کوئی دوسری ڈگری کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں ایسے نوجوان سب سے زیادہ بےروزگاری کا شکار نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر قابل لوگ بھی اسی طبقے سے سامنے آتے ہیں۔
ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی مشکل وقت کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انجینئرنگ کونسل کے پاس 2,60,000 انجینئرز ریجسٹرڈ ہیں جن میں سے 30 فیصد سے زائد بیرونی ممالک میں ہیں اور 50,000 سے زائد بے روزگار ہیں جو کہ دنیا میں چوتھا نمبر ہے بےروزگا انجینئرز کا۔
دوسری طرف اگر ڈاکٹرز پر نظر ڈالی جائے تو ان کے حالات بھی ایسے ہی ہیں۔ کئی ہزار بےروزگار ہیں اور کئی ڈگری کے حصول بعد پریکٹس نہیں کر رہے۔

دنیا میں چوتھا نمبر ہے پاکستان میں جہاں سب سے زیادہ ڈاکٹرز ہیں ان میں سے 60 فیصد خواتین پریکٹس ہی نہیں کرتیں۔ اگر PHD سیکالرز کی بات کی جائے تو جیو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بےروزگار PHD ہولڈرز کی تعداد تقریباً 3000 کے قریب ہے۔ دی ڈان اخبا کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان میں بےروزگار افراد کی تعداد تقریباً 6.65 ملین سے زائد بے۔


حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث پڑھے لکھے نوجوانوں میں اصافہ ہو رہا ہے اور بےروزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے پاکستانی ڈاکٹرز انجینئرز اور دوسرے شعبوں کے پروفیشنلز بیرونی ممالک میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کا بیرونی ممالک جانے کا سبب حکومت کی غلفت اور میرٹ کی پامالی ہے۔نوجوان نسل کے مستقبل کے تحفظ کی ذمّہ داری حکومت کا فرض ہے۔


 کس بھی ملک میں غداری کی تحریکیں اس وقت سر اٹھاتی ہیں جب عدل و انصاف کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے۔ وہ نوجوان جنہیں اقبال نے شاہین کہا تھا آج وہ اپنے پڑھے لکھے ہونے پر افسردہ ہیں ۔ بےروزگاری سے تنگ آ کہ خودکشی کر رہے ہیں ہزاروں نشے کے عادی ہیں اور کئی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان کا زمہ دار کون ہے؟ اگر حکومت تعلیم کی عام کرنے میں لگی ہے کیا اس کی ذمّہ داری نہیں کہ وہ روزگار کی فراہمی کو یقینی بنائے؟ لہذا حکومتِ پاکستان نوجوانوں کوبنیادی حق سے محروم نہ کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :