کشمیر کی نظریاتی سیاست؟

منگل 28 ستمبر 2021

Muhammad Ibrahim Abbasi

محمد ابراہیم عباسی

تقسیم ہند سے پہلے کشمیر برصغیر کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ریاست تھی ۔ یہ ریاست معدنیات اور سیاحت کے حوالے سے خاص اہمیت کی حامل تھی۔ آبادی زیادہ مسلمانوں پر مشتمل تھی جبکہ حکمرانی غیر مسلموں نے بھی کی۔ تقسیم ہند کے بعد کشمیر کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیری عوام کا ہوا ۔ کشمیری اپنی ثقافت، زبان اور روایات سے محروم ہوئے ۔

کئی خاندانوں کو قتل کر دیا گیا لاکھوں افراد اپنے آباؤاجداد سے دور ہو گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو معذور کر دیا گیا اور ہزاروں کو غیر قانونی طور پر جیل میں بند کر دیا گیا۔  اس کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی شناخت بھی ختم ہو گئی۔ جو کہ سب سے بڑا نقصان تھا۔ اس وقت کے کچھ کشمیری رہنماؤں نے اس نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کی مضاحمت کام نہ آ سکی۔

(جاری ہے)

یا تو انہیں نظر بند کر دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ کئی سیاسی انتقام کی زد میں آئے اور سیاسی اہمیت اور حیثیت کھونے کی وجہ سے سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔ اس کو غنیمت جان کر بہت سارے ایسے سیاسی رہنما سامنے آئے جنہوں نے کشمیر کی سالمیت اور بقا کے بجائے ذاتی فائدے اور اقتدار کی بھوک کو ترجیح دی۔ یوں اس طبقے کو تقویت ملنا شروع ہوئی۔ یہی طبقہ دوسری طاقتوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف استعمال بھی ہوا۔

اس کی کئی مثالیں مقبوضہ کشمیر میں موجود ہیں۔
البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کشمیر کی جب سے تقسیم ہوئی ہے ہر طاقت نے بلواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ حاصل کیا ہے۔
آزاد کشمیر پچھلے چوہتر سال سے پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ شروع کے کچھ سالوں میں آزاد کشمیر کی ریاستی جماعتوں نے ہی حکومت کی۔ اسی بنا پر کئی معاہدے بھی ہوے۔ جو کہ میری ذاتی رائے کے مطابق کشمیریوں کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوئے بلکہ الٹا کشمیر کی آزادی و سالمیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ۔

البتہ اس وقت جماعتوں کے فیصلے آزاد کشمیر میں ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ایک مخصوص طبقہ آزاد کشمیر پر مسلط ہوا اور موروثی سیاست کی بنیاد رکھی گئی۔ کچھ عرصہ ہی گزرا تھا پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی آزاد کشمیر میں سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ جس سے کشمیر میں نظریات تقسیم ہو گے۔ کئی نظریات ابھر کر سامنے آئے برادری ازم وغیرہ ۔ مگر بنیادی طور پر تین طبقات وجود میں آئے ۔

ایک وہ جو آزاد ریاست کے حامی تھا۔ جنہیں آہستہ آہستہ سیاسی منظرنامے سے غائب کر دیا گیا۔ خود کشمیریوں نے انہیں غدار قرار دیا۔ بد قسمتی سے اس طبقے پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ جس وجہ سے اس طبقے کی سیاسی جماعتیں کشمیر الیکشن میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔  دوسرا وہ جو الحاق پاکستان کا حامی ہے۔  اس طبقے نے پاکستان سے حاصل ہونے والی امداد میں بد عنوانی کی ۔

امداد کے طور پر حاصل ہونے والے فنڈز کو غائب کر دیا۔  کئی مواقعوں پر غیر قانونی اور ذاتی مفاد کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔  کئی ایسے معاہدے بھی کیے جن سے کشمیریوں کو لا علم رکھا گیا۔ وہی معاہدے کشمیر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ یہ طبقہ ابھی بھی موجود اور طاقت ور ہے۔  تیسرا طبقہ وہ تھا بلکہ بدقسمتی سے ابھی بھی موجود ہے جس نے ریاستی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کو اہمیت دینا مناسب سمجھا ۔

  یہ طبقہ بد قسمتی سے کشمیر کی سیاست میں زیادہ کامیاب نظر آتا ھے۔  کیونکہ کے اس طبقے کا نظریہ ریاست کی بہتری یا عوام کی فلاح نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور اقتدار ہے۔ جس پارٹی کے حکومت بنانے کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں تو یہ اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں۔  جس سے پارٹی کے پرانے کارکنان کی ساخت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی بنیاد پر پرانے کارکنان پارٹی میں گروپ بندی کر کے پارٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

  اپنی مرضی کے لوگوں کو نوکریوں سے نوازتے ہیں۔ جس سے ریاست اور پارٹی ساخت اور نظریہ کو نقصان پہنچتا ہے۔  یہ وہی طبقہ ہے جو کشمیریوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔
ان طبقات سے ہٹ کے بھی آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے مسلئہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود  ہیں جو اقتدار کی خاطر دربدر رسوا ہوئے ۔ انہیں ایسے لوگوں کی سامنے جھولی پھیلانی پڑی جو بدنام زمانہ لوگ تھے۔

صرف ذاتی دشمنی اور اقتدار کی خاطر اپنی عزت نفس مجروح کرنے کے علاوہ اس ریاست کی عوام کے سر بھی شرم سے جھکا دیے۔ جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں نہ  تو مسلئہ کشمیر پر آزادی سے  فیصلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کہ مسلئہ کشمیر نہ ان کے نظریہ کا حصہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی پارٹی کے منشور میں شامل ہوتا ہے۔ یاد رہے مسلئہ کشمیر کشمیر کی  ریاستی جماعتوں کے منشور کا ہی حصہ ہوتا ہے۔
لہذا کشمیریوں کو چاہیے کہ اپنے سیاسی و نظریاتی تقدس کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :