مظلوم نوجوان نسل!

ہفتہ 10 جولائی 2021

Muhammad Ibrahim Abbasi

محمد ابراہیم عباسی

پاکستان کی ساٹھ سے ستر فیصد عوام نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے والدین اپنے فرائض ادا کریں اور حکومت بھی اپنا کردار ادا کرے۔ حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے مستقبل کا تعافظ کرے ایسی پالیسیاں مرتب کرے جو نوجوانوں کے لیے سود مند ثابت ہو۔

کیونکہ جب تک بنیادی ضروریات پوری نہیں ہونگی تو صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع نہیں ملتا کامیابی ان لوگوں کے ہی قدم چومتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں کامیاب ہوتے ہیں کم وسائل ہونے کے باوجود صلاحیتوں کے جوہر دکھانا بھی ایک کامیابی ہے جس کا تناسب اس ملک میں بہت زیادہ ہے۔
دیہاتی علاقوں میں تعلیمی نظام بہت زیادہ خراب ہے جسکی وجہ سے دیہاتی علاقوں کے لوگوں میں پسماندگی بہت زیادہ ہے اور شعور کی کمی ہے۔

(جاری ہے)

بہت کم نوجوان ان علاقوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اکثر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور کچھ تعلیم کی تکمیل کے لیے کسی بڑے شہر کا رخ کرتے ہیں( الحمدللہ ایسے نوجوانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے) ۔جہاں ان کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ مسائل پر نظر ڈالی ہے جو بہت سے طالبِ علموں کو درپیش آتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کئی مسائل پر نظر نہیں ڈالی کیونکہ لازمی نہیں کہ ایک مسلئہ ہر طالبِ علم کو بھی درپیش ہو۔


 اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان میں تعلیم بہت مہنگی ہے جسکی وجہ سے بہت سے نوجوان اس روشنی سے محروم ہوتے آئے ہیں۔ اس کے بعد جوسب سے پہلا مسلئہ جو ایسے طلباء کو درپیش ہوتا ہے وہ رہائش کا ہوتا ہے جہاں رہ کر وہ اپنی تعلیم حاصل کریں ۔ بلاشبہ تقریباً اُن تمام شہروں میں ہاسٹل موجود ہیں جہاں ملک کے دور دراز علاقوں سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔

مگر ان ہاسٹلز کی فیس یا کرایہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے لیے ہاسٹل میں گزارا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹیز یا کالجز کے ہاسٹلز میں اتنی جگہ ہوتی نہیں کہ سارے طلباء ہاسٹلز میں رہیں کچھ ہاسٹلز کا معیار بہت خراب ہوتا ہے ایک دن گزارنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ ان ہاسٹلز میں جگہ حاصل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔

دوسرا نہ ان کے کھانے کا معیار اچھا ہوتا کہ کھایا جا سکے۔ تیسرا بڑا مسلئہ سفر کا ہوتا ہے خواہ وہ ہاسٹلز سے یونیورسٹی تک کا ہو یا گاؤں سے شہر تک کا کیونکہ کہ گاڑیوں کے کرایے ہی بہت زیادہ ہیں۔ کالجز اور یونیورسٹیز کی بسوں کی اتنی تعداد نہیں ہوتی کہ وہ سارے ادارے کے طلباء وطالبات کو سہولت فراہم کر سکیں اور نہ ہی وہ زیادہ دور جا سکتی ہیں۔

چوتھا مسلئہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔
 حکومت کو چاہیے کہ ہاسٹلز کے لیے ایک مکمل قانون مرتب کرے ایک ماڈل تیار کر کے ہاسٹلز مالکان کو دے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ کام کریں۔ کھانے ، رہائش اور دوسری سہولیات کا حکومت کی طرف سے باقاعدہ جائزہ لیا جائے۔ بہتر رہے گا کے قیمتوں کا تعین بھی حکومت مالکان سے مشاورت کے بعد طہ کرے۔

سفر میں آسانی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کرایوں میں کمی کرے جس سے طلباء وطالبات کو ریلیف فراہم ہو۔
 کئی ایسے نوجوان ہوتے ہیں جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہر جاتے ہیں تو ان کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہے وہ کسی نیٹ ورک کی سم تو لے نہیں سکتا البتہ اپنے والدین یا کسی اور کے نام پر سم حاصل کرتے ہیں جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔

مگر یاد رہے اس جدید دور میں موبائل اور انٹرنیٹ کا ہونا لازمی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک مخصوص سم متعارف کروائے جو صرف طلباء وطالبات کے لیے ہو اور انٹرنیٹ کی سہولت مفت میَسر ہو۔
ملک کے نوجوانوں کو انکی ضرورت کے مطابق جب سہولیات مہیا کی جائیں تب ہی وہ ملک کے وفادار اور ملک کے مستقبل کے لیے سود مند ہونگے۔ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کا کسی ملک میں موجود ہونا اس ملک پر اللہ کا خاص کرم اور خوش قسمتی ہے۔ ان نوجوانوں کو ملک کے قابل خدمت اور ملک کا ستون بنانا حکومت کی ذمّہ داری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :