
بڑھتی ہوئی بے روزگاری، فقیر طبقہ اور ہوٹل ازم
پیر 11 اکتوبر 2021

محمد ابراہیم عباسی
(جاری ہے)
یاد رہے اس طرح کے لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کھانے کا معیار اچھا یا قابل استعمال ہے کہ نہیں ان کا مقصد صرف اور صرف اپنا پیٹ بھرنا اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور دعائیں دینا ہوتا ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کو بھی نہیں جانتے۔ بے شک اللہ نے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے 2018 کے سروے کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانیوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں جبکہ گالف ٹو ڈے کے مطابق 2019 میں ان پاکستانیوں کی تعداد 36.9 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد ہوگئی۔اس سے بھوکے لوگوں کا اندازہ کرنا آسان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں بہت سے سفید پوش اور خوشحال گھرانے بھی کرونا وائرس کی وجہ سے مشکل سے دوچار ہیں۔ جن کو کچھ عرصہ پہلے دو یا تین وقت کا کھانا باآسانی دستیاب تھا مگر اب روزگار نہ ہونے اور مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی با مشکل مسیر ہے یا شائد وہ بھی نہیں۔
جن طبقات کی معاشی حالت بہتر ہے وہ اکثر ہوٹلوں میں کھانا تناول فرماتے ہیں۔ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو بڑے ریسٹورانٹس میں اور فاسٹ فوڈ کے بڑے برینڈذ سے کھانا آرڈر کرتے ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو عام ہوٹلوں پر جاتے ہیں جن کا معیار اچھا نہیں ۔ ان ہوٹلوں کا کھانا معیاری نہ ہونے کی وجہ سے انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ فوڈ اتھارٹیز کے ایکشن لینے اور جرمانہ عائد ہونے کے باوجود وہ اپنے معیار کو بہتر نہیں بناتے۔ بڑے شہروں میں پھر بھی کس حد تک نہ ہونے کے برابر ہی سہی کوئی کارروائی عمل میں تو لائی جاتی ہے مگر چھوٹے شہروں میں فوڈ اتھارٹی نامی کوئی ارادہ ہی موجود نہیں اگر ہے بھی تو بس نام کا، کوئی عملی اقدام کرتا نظر نہیں آتا۔ ان سے بھی بر تر حالت ان ہوٹلوں کی ہوتی ہے جو کسی روڈ کے کنارے پر واقع ہیں اکثر ایسے ہوٹل مقامی لوگوں کی مالکیت ہوتی ہیں اگر کوئی ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر بھی دے تو وہ اس کے ذمّہ داروں کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان ہوٹلوں میں کھانے کے نرخ مالکان کی مرضی سے مرتب ہوتے ہیں اور معیار بھی بہتر نہیں ہوتا بہت سی بیماریوں کا سبب یہی ہوٹل ہیں۔
ان بیماریوں اور متوقع مشکل وقت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ باقاعدہ طور پر ایک قانون مرتب کرے۔ قانونی سازی میں غریب عوام کی امنگوں کو مدنظر رکھے اور ہوٹل مالکان کے حقوق پر ڈاکا بھی نہ پڑے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہوٹلوں کے کھانے کا معیار کو چیک کرے۔ غریب اور بیکاری جو سڑکوں پر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں وہ کھانا بھی یہیں سے حاصل کرتے ہیں۔اس لیے سڑکوں، گندگی کے ڈھیروں اور گندے نالوں میں کھانا نہ پھینکنے کا حکم جاری کرے تاکہ جو ان جگہوں سے کھانا اٹھاکر کھاتے ہیں وہ محفوظ رہیں ۔ ایسے طبقے کے لیے شروع کیے گئے پروگراموں کی باقاعدگی سے جائزہ لے،اور پروگراموں کی بہتری اور پورے ملک میں رسائی کو یقینی بنائے۔
اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ذمّہ داری صرف حکومت پر ہی نہیں عائد ہوتی بلکہ عوام بھی اپنا مثبت کردار ادا کرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ابراہیم عباسی کے کالمز
-
سماجی میڈیا اور معاشرہ
اتوار 19 دسمبر 2021
-
نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی مایوسی
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
صفائی نصف ایمان کیوں ہے؟
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
مشرقی ذہن مغربی دنیا کےغلام
منگل 7 دسمبر 2021
-
بڑھتی ہوئی بے روزگاری، فقیر طبقہ اور ہوٹل ازم
پیر 11 اکتوبر 2021
-
پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری
ہفتہ 9 اکتوبر 2021
-
کشمیر کی نظریاتی سیاست؟
منگل 28 ستمبر 2021
-
مظلوم نوجوان نسل!
ہفتہ 10 جولائی 2021
محمد ابراہیم عباسی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.