رمضان المبارک تحفہ خداوندی

جمعہ 24 اپریل 2020

Muhammad Ijaz-Ul-Haq

محمداعجازالحق

یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ، جن کی زندگی میں ایک مرتبہ پھر ماہ رمضان المبارک پوری آب و تاب کے ساتھ سایہ فگن ہے ۔ آئیے، اس عنایت خصوصی پر اللہ تعالٰی کے حضور سجدہ شکر بجا لایں کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں اس سالانہ ریفریشر کورس میں رجسٹرڈ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ دعا فرمایا کرتے، اللهم بلغنا رمضان - اے اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں رمضان نصیب کر دیے۔


رحمتوں اور برکتوں کا یہ مہینہ، جسے بلا شبہ نیکیوں کا موسم بہار کہا گیا ہے۔ یوں سمجھئے، جیسے بہار اور برسات کے موسم میں زمین میں روئیدگی پیدا ہوتی ہے اور خشک سے خشک تر اور سخت کوش بیج جو حالت خوابیدگی (Dormancy) میں پڑا ہوتا ہے وہ بھی نرم ہو کر کونپلیں نکالنا شروع کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

خود رو جڑی بوٹیاں بھی خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگتی ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگ جاتا ہے۔ کیاریاں اور پیڑ پھولوں سے لد پھند جاتے ہیں۔ فضا خوشبوؤں سے معطر ہو جاتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاٹ، گرمجوشیوں اور کامجویوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا ۔درحقیقت وہ اور زیادہ اپنے رب کی یاد میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں ۔ تتلیوں کی اٹھکھیلیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ جگنو روشنیاں پھیلاتے ہوئے چراغ راہ بن جاتے ہیں۔

اس ماہ مقدس کا بھی یہی عالم ہے۔ اس کے شروع ہوتے ہی رحمت خداوندی کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے، اور اس کی مقدار بیحد وحساب بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو پکار پکار کر اپنی رحمت اور بخششں کی طرف بلا رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی اس چشمہ آب حیات سے اپنی پیاس بجھانے والا؟ اس پر لبیک کہتے ہوے ہر اہل ایمان حسب توفیق اپنا حصہ وصول کرکے اپنی زندگی کے گلدستے کو سجاتا اور سنوراتا ہے ۔


سچی بات تو یہ ہے کہ اس ماہ مبارک کی عظمت و بزرگی کے کیا کہنے! خود جسے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے "شھر عظیم" اور "شھر مبارک" کا خطاب دیا ہو۔ یعنی بڑی عظمت و رحمت والا مہینہ ۔ ہم اس ماہ مبارک کی عظمت کا تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری زبان اس کی ساری برکتوں اور حکمتوں کا احاطہ کر سکتی ہے ۔ ایسا مہینہ جس کے دامن میں اللہ تعالٰی نے ایسی رات پرو دی ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے خود قرآن حکیم کی سورہ القدر میں ارشاد فرمایا ہے کہ "یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر و افضل ہے"۔

ایسی رات کو لیلتہ المبارکہ اور لیلتہ القدر کا نام دیا گیا ہے ۔ جس میں اللہ تعالٰی نے اپنا سب سے اعلٰی کلام انسانیت کی رہنمائی و ہدایت کے لیے نازل کیا ۔ حقیقت میں اس ماہ مبارک کا ہر روز، روز عید و سعید اور شب،شب برات ہے۔ اس مبارک مہینے کی ہر گھڑی میں اللہ تعالٰی نے فیض و برکت کا بیشبہا خزانہ پوشیدہ کر دیا ہے۔ اب ہر مسلمان پر منحصر ہے کہ وہ اس خزانے سے کتنا حصہ وصول کرتا ہے-
ذرا غور کیجئے، اس ماہ مبارکہ میں نفل اعمال صالحہ، فرائض اعمال صالحہ کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں، جبکہ فرائض کا درجہ ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔

اللّٰہ تعالٰی کی بے پایاں رحمتوں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے ۔ آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ نیکی پر عمل کرنا سہل جبکہ بدی اور برائی کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بشارت دی ہے کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ سبحان اللہ ، خداوند کریم نے روزے داروں کیلیے کیا کیا انعامات رکھے ہیں، حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے، ہر نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک ہوتاہے، جبکہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا ایسا عمل ہے جس کے اجر کی کوئی حد نہیں، روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دونگا۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول ا للّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، روزہ ڈھال ہے، اگر تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو تو وہ فحش کلامی نہ کرے، اور نہ جہالت سے پیش آئے، اگر کوئی شخص اس سے جھگڑا کرے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں حالت روزہ میں ہوں۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، روزہ نصف صبر ہے، جبکہ صبر آدھا ایمان ہے، جس سے معلوم ہوا کہ روزہ ایمان کا چوتھا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ کئی اور مواقع پر بھی احادیث نبوی میں روزے کی فضیلت کو بصراحت واضح کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا، روزہ دار کا سونا بھی عبادت ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ، روزہ داروں کو دو خوشیاں میسر آتی ہیں، ایک خوشی افطار کے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔
رمضان المبارک مسلمانوں کو اپنی زندگیاں بدلنے اور ان کو صراط مستقیم پر استوار کرنے کا عظیم الشان موقع فراہم کرتا ہے ۔

سال بھر بہترین زندگی گزارنے کے لیے تربیتی کیمپ ہے۔ جتنا بڑا یہ مہینہ ہے اس کا اجر (reward) بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ ویسے تو سارے مہینے اللہ تعالٰی کے ہیں لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر کون سی وجہ ہے جس کے باعث یہ ماہ تمام مہینوں سے افضل ٹھہرا ۔ اس کا جواب خود خالق کائنات نے اپنے پاک کلام کی سورت البقرہ آیت ۱۸۳ میں ان الفاظ میں دیا ہے۔ “رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو نوع انسانی کے لیے سراسر سراپا ہدایت اور واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ۔

ایسی کتاب جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دیتی ہے، لہٰذا جو اس کو پا لے وہ ضرور اس کے روزے رکھے"۔
ذرا اندازہ کیجئے،کس طرح ہم دونوں ہاتھوں سے اللہ تعالٰی کی بیحد و حساب نعمتوں سے جھولیاں بھرتے ہیں مگر ہم ان تمام نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتے ۔ ان سب نعمتوں میں سے اعلٰی و ارفع نعمت قرآن حکیم کا نزول ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کی بے انتہا محبت اور رحمت کے جوش و خروش کا دینا میں سب سے بڑا ظہور ، اوررہتی دنیا کے لیے رہنمائی و ہدایت کا سب سے بڑا منبع ۔

اس پر رب ذوالجلال نے قرآن مجید کی سورہ یونس آیت ۵۷ میں کچھ یوں گواہی دی ہے۔”لوگو تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جس میں دلوں کے امراض کی شفا ہے جو اس کو اپنا لے،اس کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے"۔ یہی کامیابی وکامرانی کا اصلی نسخہ ہے ۔ اسی کو اختیار کر کے انسان تقوٰی کی روش پر چل سکتا ہے ۔
آج جبکہ پوری دینا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے، اور اس وبا کی تباہکاریاں پورے عروج پر ہیں۔

جس نے جغرافیائی سرحدوں اور طبقاتی امتیاز کو ختم دیا ہے اور انسان اس کے آگے بے بس و درماندہ اور عاجز ہو چکاہے۔ دینا کے ہر کونے میں ویرانی و پریشانی کی عجیب و غریب کیفیت طاری ہے۔ بیشتر ممالک میں حفاظتی تدابیر کی وجہ سے تعلیمی ادارے، مساجد و عبادت گاہیں اور تجارتی مراکز بند کردینے گئے ہیں۔کاروبار زندگی عملی طور پر مفلوج ہو گیا ہے۔

ایسے ماحول میں ماہ رمضان المبارک کی عظمت خاص اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ماہ مبارک انسانیت کے کیے تحفہ خداوند ی ہے، جس میں اللہ تعالی نے دینا بھرکے مسلمانوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ اس ماہ مبارک میں اپنی بخششش و مغفرت کا خصوصی اہتمام کریں۔ تنہائی کے لمحات میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا امیدوار ٹھہراتے ہوئے اس کے سامنے گڑگڑایں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں۔

اپنے اندر خوف خدا اور تقوی کی روش کا اعادہ کریں۔ تاکہ ہمارے لیے بچنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔ اس کی علاوہ آج کے غیر معمولی حالات و واقعات اور آزمائش و ابتلا کی اس مشکل گھڑی میں ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش میں ان افراد کا ضرور خیال رکھیں جو حالات کے ستم کی وجہ سے معاشی مسائل کا شکار ہیں ، اور اللہ تعالی کی خوشنودی و رضا کی خاطر اس کے دیے ہوئے مال میں سے زیادہ سے زیادہ اس کی راہ میں خرچ کریں۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اور یہی رمضان کا پیغام اور مطلوب و مقصود بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :