دانائے راز رموز دین

منگل 10 نومبر 2020

Muhammad Ijaz-Ul-Haq

محمداعجازالحق

نو نومبر یوم اقبال ہے ۔علامہ اقبال برصغیرپاک و ہند کی حالیہ تاریخ کی ایک عظیم اور عبقری شخصیت، جس نے برصغیر کے مسلمانوں پر اپنی فکر اور شاعری سے نہ صرف گہرے و انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ ایسے دور رس نتائج مرتب کیے جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمانان ہند نے اپنےلیے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک آزاد مسلم ریاست کے حصول کی راہہموار کی، جو بعد میں پاکستان کی شکل میں دینا کےنقشے پر نئی مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا۔

اقبال ایک عظیم مفکر، فلسفی، شاعر سیاست دان اور ان سب سے بڑھ کر سچے عاشق رسول اللہ صلی للہ علیہ و سلم تھے۔ انہوں نے ایسے وقت میں مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا جب مسلمان فکر و عمل سے اعراض و غفلت میں مبتلاہو کر غلامی کی مضبوط زنجیروں میں جکڑے جاچکے تھے ۔

(جاری ہے)

امت مسلمہ پر ناکامی و نامرادی کاسکوت چھایا ہوا تھا تمام مسلم ممالک ایک ایک کرکے اغیار و سامراج کی آغوش میں پناہ لےچکےتھے۔

یہ رحمت خداوندی کا جوش ہی تھا کہ جس نے ایسے وقت میں مسلمانوں کو دانائے رازرموز دیں عطا کیا جس نے غلامی کے ماحول میں مسلمانوں کو خودی کا درس دیا ۔ انہیں ان کاتابناک ماضی یاد دلایا۔ ان میں قرآن کی عظمت ورفعت کا احساس و شعور جانگیزیں کیا اور پھرقرآن حکیم پر عمل ہی کو ان کی مشکلات کا حلقرار دیا۔کلام اقبال کا بغور مطالعہ کرنے سے آپ محسوس کریں گے کہ فکر اقبال کی تمام حثیتں قرآن حکیم ہی کی راہنمائی میں نشونما اور تشکیل پاتی ہیں ۔

وہ قوم و ملت کی عظمت رفتہ اورمسلمانوں میں پیدا ہو جا نے والی بیماریوں کےعلاج کا نسخہ قرآن مجید اور اتباع سنت رسول اللہ صلی للہ علیہ و سلم کو ہی قرار دیتے ہیں۔ انکے نزدیک اس نسخے سے روگردانی کرکے مسلماندین و دنیا میں ذلت و رسوائی کا پیکر بن جاتا ہے،آج اگر پستی و ذلت مسلمانوں کا مقدر یے تو اسکی سب سے بڑی وجہ بھی قرآن سے دوری ومحجوری ہے، اسی لیے فرماتے ہیں،
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں  ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
ان کے اس پیغام کی بنیاد وہی ہے جس کا حکم نبی اکرم صلی للہ علیہ و سلم نے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں دیا تھا ، جس میں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اے لوگو میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب قرآن حکیم اور دوسری اپنی سنت، اندونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔

اقبال کی اپنیزندگی رسول اللہ صلی للہ علیہ و آلہ وسلم کےعشق و محبت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں،
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
ایک جگہ اور  فرماتے ہیں
گرتو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن بجز قرآن زیستن
کلام اقبال کے مطالعہ سے یہ بات پوری فصاحت سے واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ ایک دورکے شاعر نہیں ہیں بلکہ آپکی شاعری اور افکار نےتمام زمانوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔

اسی لیےآپ کی شاعری اور فکر آج بھی پوری قوت ورعنائی سے تروتازہ ہے۔ عشق رسول اللہ صلی للہ علیہ و آلہ و سلم اقبال کی سوچ کا مرکز و محورہے۔ان کے نزدیک یہی جذبہ اللہ تعالٰی تک رسائیکا وسیلہ و ذریعہ بنتا ہے، یہ جذبہ ان کے رگ وپے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ اس جذبےکے بغیر وہ زندگی کو لاحاصل سمجھتے تھے ۔ اسی لیے فرماتے ہیں،
در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زنامِ مصطفی است
وہ اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالٰی کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔

جواب شکوہ کا اختتام کچھ یوں کرتے ہیں ،
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ کے نزدیک مسلمان کیلیے دنیوی زندگی کی کامیابی و کامرانی ہو یا آخرت کی فوز و فلاح وہ عشق رسول صلی للہ علیہ و آلہ و سلم کے بغیرممکن نہیں۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دیر میں عشق محمد سے اجالا کر دے
اقبال تسخیر کائنات کا راز بھی معراج مصطفٰی سےپاتے ہیں۔

اور کہتے ہیں،
سبق ملا ہے معراج مصطفٰی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
وہ احساس دلاتے ہیں کہ تسخیر کائنات کا اہم اوربڑا کارنامہ بھی اسی وقت انجام دیا جا سکتا ہےجب مسلمان حضور اکرم صلی للہ علیہ و سلم کےعشق و محبت سے فیضیاب ہوں اور اسی کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا و بچھونا بنا کر اقوام عالم میں دعوت کے علمبردار بن کر پھیل جائیں ۔

اپنےکلام میں جا بجا فرماتے ہیں ملت اسلامیہ کی زندگی حضور اکرم صلی للہ علیہ و سلم کے عشق سے ہیوابستہ ہے ۔ پوری کائنات کا حسن جمال آپصلی للہ علیہ و سلم کے عشق کی وجہ سے قائم ودائم ہے۔
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحر بر در گوشہ دامان اوست
زانکہ ملت و حیات از عشق اوست
برگ و ساز کائنات از عشق اوست
ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تیش آمادہ اسی نام سے ہے
اقبال کا رسول اللہ صلی للہ علیہ و سلم سے عشقان کے کلام میں جگہ جگہ جھلکتا ہے اور وہ انتہائی خوبصورتی سے اس کا اظہار مختلف جگہوں پرکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ نبی مہربان صلہ للہ علیہ وسلم نے ہی قدرت کے انسربستہ رازوں کو کھولا جن پر طلوع اسلام سے پہلےپردہ پڑا ہوا تھا ۔ علامہ کئی مقامات پر بصراعت فرماتے ہیں کہ انسان کی روح کو حضور اکرم صلی للہ علیہ و سلم کے عشق کے بغیر سکون و قرارنہیں مل سکتا۔ مسلمان کی روح ہر وقت حالت اضطراب میں رہتی ہے ایسے میں حضور اکرم صلی للہ علیہ و سلم کا عشق اس کے لیے اس روشدن کی مانند ہے جس کا سورج ہمیشہ نصف النہارپر رہتا ہے اور جس کی تابانی و تابناکی کو کبھی زوال نہیں۔

ذرا ملاحظہ فرمایئے۔
جلوہ بے پردہ او و وانمود
جوہر پنہاں کہ بود اندر وجود
روح راجز عشق اور آرام نیست
عشق او روزیست کہ راشام نیست
غرضیکہ اقبال کی شاعری کا اصل ماحصل نبی کریم صلی للہ علیہ و سلم سے سچی محبت و عقیدت اورآپ کی ذات کریمہ سے عشق ہے اور اس کےبیشمار نظائر ان کے کلام میں جگہ جگہ روشنی کی کرنیں بکھیرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔

آخرمیں ان کی شہکار نظم 'ذوق و شوق' کے چندخوبصورت اشعار کا لطف اٹھایئے ۔
لوح بھی توُ قلم بھی توُ،تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوکت سنجرؒ ،وسیلمؒ ،تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدؒ با یزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ،میرا سجود بھی حجاب
اللہ تعالٰی ہمارے دلوں میں عشق رسول اللہ صلی للہ علیہ و سلم کی سچی تڑپ پیدا کرے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اقبال رح کو روح کو ہمیشہ آسودہ رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :