سال نو کا پیغام

جمعہ 1 جنوری 2021

Muhammad Ijaz-Ul-Haq

محمداعجازالحق

سال 2020 تاریخ انسانی پر انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے اختتام کو پہنچا۔ کرونا وائرس کی شکل میں پیدا ہونے والی وبا نے پوری دینا کو بلا شرکت غیرے نہ صرف متاثر کیا، بلکہ ہر پہلو اور زاویے سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وبا نے امیر و غریب ، کالے و گورے، حکمران و عوام ،شرق و غرب اور شمال و جنوب کا فرق و امتیاز یکسر ختم کر دیا۔ دینا کے امیر اور طاقتور ممالک کا نظام صحت اس وبا کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ملک قیامت صغرا کا منظر پیش کرنے لگ گئے، نیویارک ، لندن، روم، پیرس، برلن، ماسکو،ٹورنٹو، دبئی اور دیگر جدید اور ترقی یافتہ شہر ویرانگی و اداسی اور خوف و ہراس کی عملی تصویر بن گئے، پوری دینا کا نقشہ اسی رنگ میں رنگ گیا، جس کا اکیسویں صدی کے انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

(جاری ہے)

اور در حقیقت انسان بے بسی کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے- انسان کو اپنے ہی سائے اور اعضاء سے خوف آنا شروع ہو گیا، ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو چھونے سے خوفزدہ تھا، لوگ اپنے عزیز ترین رشتے داروں کی تیمارداری نہیں کرسکتے تھے، موت کی صورت میں مناسب تجہیز و تکفین کرنا نا ممکن بن گیا، کتنے ہی آخری وقت میں اپنے پیاروں کا دیدار کرنے سے محروم رہے۔

کتنے ہی اس سے متاثر ہوئے اور کتنے اس کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ غالب نے شاید اسی وقت کے لیے کہا تھا،
مقدور میں ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
مشیت الہی نے پل بھر میں حضرت انسان کو ہر لحظہ موت کی یاد دہانی اور اس کی درماندگی و لاچارگی و بے بسی اور اپاہجی یاد دلا دی، کہ اصل بادشاہت و حکمرانی و اختیارات صرف اسی ذات بے ہمتا کو ہے۔


قدرت کی طرف سے یہ انسانیت کیلیے سخت تنبیہ تھی۔ جس نے انسان کو آزمائش و ابتلا میں مبتلا کر دیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
پچھلی ایک صدی سے جہاں انسان نے سمندروں کے سینوں کو چیرا، آسمان تک کمندیں ڈالیں۔ چاند اور مریخ تک جا پہنچا، صدیوں اور برسوں کا سفر دنوں اور گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔ انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ نے زمان و مکاں کے فاصلے مٹا دئے۔

آواز و تصویر و معلومات یک جان و یک قالب ہو کر کرہ ارضی میں بیک وقت گردش کرنے لگے، انسانی آسائش و آرام اورُسہولیات کے نت نئے طریقے ایجاد ہوئے۔غرضکہ ہر شعبہ زندگی میں بیشمار ایجادات ہوئیں۔ نئی تحقیقات کی وجہ سے انسان نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ اس نےبڑی بڑی بیماریوں پر قابو پا لیا ہے۔ طاقتور اقوام اور افراد نے غرور و گمھنڈ میں آکر تصور کرنا شروع کر دیا، کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔

اور ترقی کی منزلوں کے ساتھ ساتھ نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی تباہی و بربادی کا بندو بست بھی پیدا کرلیا، قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے، “ ہر انسان کی لیے وہی کچھ ہے جیسی اس نے کمائی کی ہو گی، اور جو کچھ ان نے پانا ہے وہ بھی اس کی کمائی سے ہے،اور جس کے لیے وہ جوابدہ ہے وہ بھی اس کی کمائی سے ہے”۔
اسطرح غرور و تکبر کے زعم میں مبتلا ہو کر خیال کرنے لگے کہ کارخانہ قدرت کو چلانے والی کوئی ہستی موجود نہیں ہے اور اسے اپنے اعمال کی کہیں کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہے- خدا کے وجود کو چیلنج کر کے فطرت کے بنائے ہوئے طریقوں سے انحراف کرتے ہوئے نئی طرز فکر و معاشرت کی بنیادیں استوار کرنے اور اسے پھیلانے کی کوششیں کی گئیں۔

دینا کے وجود کو بس ایک حادثہ قرار دیا گیا کہ کرہ ارض محض بگ بینگ کے نتیجہ میں وجود میں آگیا ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ طبیعیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں حیاتیاتی نشوونما کا آغاز ہوا اور انسان کی تخلیق بھی اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے- مگر اس پر غور و فکر نہیں کیا گیا کہ قدرت کی طرف سے کرہ ارض کو پوری کائنات سمیت بنانے کا جو بھی عمل اختیار کیا گیا ہو، وہ عبعث و مہمل نہیں ہے-
کیا یہ بات غور و فکر کرنے کی نہیں کہ انسان کےاپنے وجود و اعضاء کتنے مربوط و منظم ہیں؟ اگرایک گاڑی یا کمپیوٹر کے پرزوں میں باہم ربط و نظم اور چلانے کیلئے مطلوبہ توانائی نہ ہوتو وہ کیسے کام کر سکتے ہیں؟ اور اس سے بڑھ کر ان کو ایجاد کرنے والا جانتا ہے کہ اس سے کیا مطلوب و مقصود ہے-
یہاں ذراایک لمحہ کے لیے رک کر سوچیئے ، کیا یہ کائنات پورے ربط و تنظیم اور کمال درجہ توازن و تناسب سے ایسے ہی چل رہی ہے؟ کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ سورج، چاند، زمین اور تمام دیگر ستارے و سیارے سب اپنے اپنے مدار میں رہ کر کیسے اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں؟ اور پھر کیا اسی نظام سے موسموں کا تغیر وجود میں نہیں آتا ہے؟ بارشیں برستی ہیں تاکہ زمین کو رطوبت و نمی مہیا کریں، جس کے نتیجے میں زمین سے فصلیں ، اناج ، طرح طرح کے میوے و پھل اور دیگر قابل ضرورت اشیاء پیدا ہوتی ہیں، کیا یہ سب کچھ بغیر کسی ضابطے و قانون کے ہو رہا ہے؟
یقیناً یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ کائنات میں سب کچھ خاص منصوبے اور حکمت عملی کے تحت ہو رہا ہے، اوراس میں قدرت کی بیشمار نشانیاں پنہاں ہیں۔

اور کیا ہماری عقل یہ سمجنے سے قاصر ہے کہ قدرت کی بنائی گئی بہترین مخلوق انسان کو صرف چند روزہ زندگی کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ یقیناً اس کی پیدائش میں قدرت الہی کی بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ اس کا جواب ہمیں اللہ کی کتاب قرآن حکیم سے ملتا ہے۔
“وہی بابرکت ذات ہے جس نے موت و حیات کو تخلیق کیا تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ ہستی زبردست قوت و اختیار کی مالک ہے اور مغفرت کرنے والی بھی”۔


اللہ تعالی کی بنائی ہوئی اسکیم کے تحت موت کے بعد ہی کی زندگی ایسی ہے جہاں انسان اپنے اعمال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے سکتا ہے، کیونکہ اس عارضی دینا میں اس کے بچ نکلنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ وہ “یوم الدین” کا مالک ہے اور اس روز اس کی بنائی ہوئی اسکیم کے تحت جزا و سزا کے فیصلے ہونگے۔
زمین کا سورج کے گرد گردش کا ایک اور سال مکمل ہوا۔

کیا یہ موقع و محل نہیں ہے کہ انسان اپنے رب کی عطا کردہ زندگی کے گزرے ماہ و سال کا جائزہ لے کہ اس نے اس کو کیسے صرف کیا اوراپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو کن کاموں میں استعمال کیا اور اس سے کیا فائدہ حاصل کیا؟ اور معلوم کرے کہ اس نے اپنے مالک و خالق کی بنائی ہوئی اسکیم کے تحت آخرت میں کامیابی کیلئے کیا کچھ سامان فراہم کیا؟ اور آئندہ سال کسطرح ہم بہتر اور تعمیری انداز میں گزار سکتے ہیں، اور اس میں ہمارے مقاصد کیا ہونے چاہئیے۔


کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں ہے کہ بحثیت انسان ہم اپنے خالق کو پہچانیں۔ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں، اور اس کی بندگی کا حق ادا کریں۔
جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا” اور ہم نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا”۔ اور ایک جگہ فرمایا، “ تم مجھے یاد کرو،میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو”۔
آئیے، اپنے اعمال کا جائزہ لیکر نئے سال میں ان کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو کریں۔

انسانیت کی فلاح کے لیے اپنا حصہ ڈالیں اور اللہ کی خوشنودی کے حصول کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ یہی سال نو کا پیغام ہے،
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!
آئیں دعا کریں، اللہ تعالی نئے سال و لمحات کو ہمارے لیے امن و سلامتی و عافیت کا گہوارہ بنا دے اور دُکھی انسانیت کو تمام وباؤں اور آفتوں سے نجات عطا فرمائے۔ اور ہمیں توفیق بخشے کہ اپنے لیے اس میں خیر و برکت و اعمال صالحہ سمیٹ
سکیں، تاکہ جب ہم رب کے حضور پیش ہوں تو دفتر خالی نہ ملے-
یہ گھڑی محشر کی ہے،تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :