عورت مارچ

پیر 9 مارچ 2020

Muhammad Ijaz-Ul-Haq

محمداعجازالحق

پاکستان میں ۸ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ کی باز گشت اس وقت پورے جوبن پر ہے۔ میڈیا پر صرف ایک ہی موضوع چھایا ہوا ہے۔ لگتا ہے جیسے وہاں مہنگائی ، کرونا وائرس اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد سمیت تمام مسائل ایک دم ختم ہو چکے ہیں ۔ اور اب صرف ایک ہی مسئلہ باقی رہ گیا ہے، جس کا حل باقی ہے۔ جہاں تک مارچ کا تعلق ہے، پاکستان کا آئین حدود و قیود کے اندر رہتے ہوے تمام انسانوں کو پر امن احتجاج کا حق فراہم کرتا ہے۔

اس لیے بنیادی طور پر کسی بھی پر امن مارچ کی مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے اس مارچ کا جو سلوگن دیا گیا ہے “میرا جسم میری مرضی” اور اسطرح کے دیگر نعرے، ان کا تعلق حقوق عورت سے ہر گز نہیں ہے ۔ کسی بھی مارچ یا احتجاج کے کچھ محرکات، مقاصداور مطالبات ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

یقیناً یہ بات غور کرنے کی ہے کہ عورت مارچ کے منصوبہ سازوں کے ذہین میں اس کے محرکات، مقاصد اور مطالبات آخر ہیں کیا؟ اگر تو مقصود آئین میں دیے گئے حقوق کی پامالی اور استحصال کو روکنا اور دیے گئے حقوق کا تحفظ ہے تو بلا شبہ یہ خواتین کا حق ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلیے آواز بلند کریں، اور اس کی حمایت بھی ہونی چاہئے، لیکن مارچ کےنعروں اور اس مارچ کے منتظمین کا لب ولہجہ کسی اور مقصد کی غمازی کر رہا ہے۔

اس ساری بحث وتمحیص سے پہلے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کی روشنی میں اجمال سے جائزہ لیں کہ دینا میں عورت کے کیا حقوق رہے ہیں، کہاں کہاں اور کسطرح عورت کا استحصال ہوا اور ہو رہا ہے، اس کیلیے کون کون سی تحریکیں چلی اور ان تحریکوں کے دینا میں کیا نتائج و اثرات بر آمد ہوئے- اسکے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے دین اسلام اپنی بعثت کے بعد انسانوں کے حقوق و فرائض کو کسطرح آپس میں ہم آہنگ کرتا ہے۔

اور دین اسلام اپنے ماننے والوں سے کیا تقاضا کرتا ہے۔
قدیم یونانی دور میں عورت کو ایک کم تر اور حقیرمخلوق تصور کیا جاتا تھا- بعد میں رومی، مصری، ہندی، ایرانی، عربی اور چینی معاشروں میں بھی کم و پیش یہی صورتحال رہی۔ ہندوستان میں تو ستّی کی رسم چند برس قبل تک جاری رہی ہے۔ ان معاشروں میں عورت کو نہ تو آزادی تھی اور نہ ہی وراثتی، تمدنی و معاشرتی حقوق حاصل تھے، آہستہ آہستہ جب تمدن ترقی کرتا گیا تو کچھ آزادیاں اور حقوق ملے مگر وہ آٹے میں نمک کے برابر تھے۔

مسیحیت کے آنے کے بعد اگرچہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جانے لگا مگر چونکہ مسیحیت نے رہبانیت کی شکل اختیار کر لی تھی اور رہبانیت نے مذہب کی آڑ میں عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی اور عورتوں کے لئے جائز اشتغال بھی ناممکن بنا دئے گئے، بالآخر جس کے نتیجے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی میں نشائتہ ثانیہ (Renaissance) کے دوران صنعتی انقلاب کے ساتھ شخصی و انفردادی آزادی کی تحریکیں بھی شروع ہوئیں ۔

عورتوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ شدومد کے ساتھ کرنا شروع کردیا، عیسائیت کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا، اور اس کے نتیجہ میں مذہب کا تعلق سوسائٹی سے ختمُ کر دیا گیا۔ انفرادی اور شخصی آزادیاں پروان چڑھیں ۔خواتین نے فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر جگہوں پر مردوں کے ساتھ برابر کام شروع کر دیا۔ اب گھر چلانے اور اس میں آسائشیں بہم پہنچانے کا دباؤ بھی بڑھتا گیا، اسکا نتیجہ یہ پیدا ہوا کہ عورتیں زیادہ وقت باہر گذارنے کے باعث گھریلو معاملات سے لاتعلق ہوتی گئیں ۔

مذہب سے لا تعلقی کے بعد اخلاقی عنصر بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا ۔ آہستہ آہستہ مرد و زن کے آزاد اختلاط سے بے راہروی پروان چڑھنا شروع ہوگئی اور عورتوں نے نکاح وغیرہ کی پابندیوں سے جان چھڑانا شروع کر دی۔ ڈی فیکٹو تعلقات کا چلن اور رحجان عام ہوتا چلا گیا۔ زنا کا تصور تقریباً ختم کر دیا گیا اور بچے نکاح کے بغیر پیدا ہونا شروع ہوگئے اور جو عورت حاملہ نہیں ہونا چاہتی وہ پہلے سے اس کیلیے حفاظتی تدابیر کر لیتی ہے اور اگر کوئی عورت حاملہ ہوگئی ہیں تو اسقاط حمل کروا لینا معمولی بات تصور کیا جاتا ہے۔

ابھی حالیہ امریکی سنٹرفارہیلتھ کے اعدادوشمار کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ۴۰ فیصد بچے بغیر شادی کے پیدا ہو رہے ہیں جبکہ یورپ میں یہ تعداد ۱۰ سے۶۰ فیصد تک ہے ۔ جس میں فرانس اور سکینڈےنیوین (Scandinavian) ممالک میں ان کی تعداد تقریباً ۶۰ فیصد، برطانیہ میں تقریباً ۵۰ فیصد اور جرمنی میں ۴۰ فیصد تک ہے۔اور اس تعداد میں پچھلے سالوں کی نسبت مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ان ممالک کی آبادی میں ان تحریکوں کی وجہ سے اور پھر جنگ عظیم اوّل اور دوم کے بعدمسلسل کمی ہوتی گئی اور ان کی حکومتوں کو اپیل کرنی پڑی کے عورتیں حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں کیونکہ ان کی آبادی میں اضافہ ہونا رک گیا تھا۔ مگر ان اپیلوں کے باوجود آبادی میں خاطرخواہ اضافہ نہ سکا تو مجبوراً امیگریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا تاکہ صنعتی پیداوار کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔

مغربی ممالک کی حکومتوں نے بچے جننے والی عورتوں کیلیے مختلف مراعات کا اعلان کیا جس میں پیرنٹل چھٹی، نوزائدہ بچوں کیلیے بونس اور چائلڈ کیئر سنٹر وغیرہ کا قیام شامل ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق مغربی ممالک کی آبادی میں اضافہ زیادہ تر امیگرینٹس کے باعث ہوا ہے، جن میں ابھی تک خاندانی اقدار اور نکاح کا ادارہ موجود ہے، اور ان خاندانوں کی بڑی تعداد ایشا اور مشرق وسطی سے ہجرت کر کے یورپ، امریکہ ، کینڈا اور آسٹریلیا میں آباد ہوئی ہے، جبکہ وہاں کے مقامی باشندوں میں یہ اضافہ بہت کم رفتار سے دیکھنے میں آیا ہے۔

جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی کم و پیش یہی صورتحال ہے اور اب ان ممالک نے وہاں بھی پچھلے چند سالوں سے امیگریشن شروع کی ہوئی ہے تاکہ آبادی اور صنعتی پیداوار کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔ تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، آجکل ساری معلومات اور اعداد شمار نیٹ پر اور مختلف جریدوں کی رپورٹوں میں آسانی سے دستیاب ہیں ۔
جن ممالک، قوموں یا افراد نے فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر افراط و تفریط کی راہ اختیار کی ہے وہی سے ان کا توازن بگڑا ہے اور معاشرے میں تہذیبی و تمدنی اور خاندانی تباہ کاریوں نے جنم لینا شروع کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سوسائٹی کے مقابلے میں جب مغرب نے بےپناہ انفرادی وشخصی آزادی کا استعمال کیا تو اس نے معاشرے کا توازن بگاڑ دیا، جس کا لامحالہ پہلا نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں نکلا۔

اور آج ایسے معاشرے خاندانی نظام کی تباہہکاریوں کے اثرات محسوس کر رہے ہیں مگر واپسی کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ سرمایہ دار طبقہ نے اپنے سرمایہ کو تحفظ دینے اور مزید سے مزید کمانے کیلیےجمہوریت کو استعمال کیا اور سرمایہ کی قوت پر ایسے لوگوں کو منتخب کروایا جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں، اس کے ساتھ اس طبقے نے میڈیا کا اپنے حق میں بے دریغ استعمال کیا، اور شخصی آزادیوں کو تحفظ دینے کے نام پر مختلف این جی اوز (NGO) کی بنیاد رکھی اور ان کو اپنے مقاصد کے حصول کیلیے خوب استعمال کرنا شروع کر دیا۔

جمہوریت کی بنیاد چونکہ ووٹ پر ہے جہاں قانون ساز اسمبلی بغیر تمیز کیے کسی حرام چیز کو ووٹوں کی بنیاد پر پاس کر دے تو وہ قانون بن جاتا ہے، جس کی مثال یہ ہے کہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہم جنس مرد اور عورتیں آپس میں شادی کر سکتی ہیں ۔ اسی طرح مرضی سے زنا، ہم جنس پرستی، شراب نوشی ، قحبہ خانے، جواکھیلنے کے اڈے اور ایسی اور بیشمار چیزیں جمہوریت کے بل بوتے پر جائز قرار دیے دی گئی ہیں۔

ان معاشروں نے لادینی جمہوریت کے ذریعے شخصی آزادیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوے مذہب کو اجتماعی معاملات میں سوسائٹی سے مکمُل خارج کر دیا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ اکیاون فیصد لوگوں کا بنایا ہوا قانون، فطرت کے بناے ہوے اصولوں کو بدل سکتا ہے۔ اب سیکولر سرمایہ دارطبقہ اپنے مذموم مقاصد کیلیے پاکستان میں بھی شخصی آزادیوں کی بنیاد انہی اصولوں پر رکھنا چاہتا ہے، جس کی بنیاد یورپ اور مغرب میں رکھی گئی تھی تاکہ عورت کوجسم فروشی اور قحبہ گری کیلیے استعمال کر سکے اور اس کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہو۔


اب ہم اس حوالے سے اختصار کے ساتھ اسلام کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیگر تمدنوں کے مقابلے میں دین اسلام نے مردوں اور عورتوں کے کیا حقوق مقرر کیے ہیں۔ اسلام میں مرد و عورت دونوں خاندان کی ایک بنیادی اکائی ہیں۔ جس سے خاندان اور پھر معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اس بنیادی اکائی میں اسلام فطرت کے عین مطابق مرد کو قوام ٹھہراتا ہے ، مرد کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اپنے بیوی اور بچوں کی جملہ تمام ضروریات کا خیال رکھے جبکہ عورت گھر کی محافظ و مالکہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی پہلی درسگاہ قرار پاتی ہے۔

اسلام خاندانی نظام میں ماں، بیوی، بیٹی، بہن سمیت سب کو حالات کے مطابق وراثت میں حصہ دار ٹھہرا تا ہے، اسلام نے عورت کو جو معاشی اور تمدنی حقوق دئے ہیں اس کی نظیر ابھی تک کوئی اور تمدن دینے سے قاصر ہے ۔جبکہ مغرب نے جو حقوق عورت کو تحریکوں کے نتیجہ میں دیے وہ اس کو عورت کی حیثیت سے نہیں دیے بلکہ مرد کی حیثیت سے دے ہیں ، اسی لیے مغربی معاشرہ میں عورت سے وہی مطالبہ کیا جاتا ہے جو ایک مرد سے کیا جاتا ہے۔

اور عورت وہ سب کام کرتی ہے جو ایک مرد کرتا ہے اگرچہ وہ اپنی ساخت کے اعتبار سے ان تمام کاموں کیلیےتخلیق نہیں کی گئی ہے۔انسان کی تخلیق کرنے والا جانتا ہے کہ اس کی کونسی مخلوق میں کونسی صلاحیت ہے، اس نے سب نوع کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے اور بخوبی جانتا ہے اس جوڑے کی ساخت کیا ہے اور کون کیسی خدمت سر انجام دے سکتا ہے۔ اگر آپ ان نکتہ پر غور کریں تو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ مرد کا اصل کام معاشرہ میں کیا ہے اور عورت کا اصل کام کیا ہے۔

مغرب اور قدیم معاشرے شروع سے ہی افراط و تفریط اور دو انتہاؤں کا شکار رہے ہیں اس لیے ان معاشروں میں ہیجان پیدا ہونا یقینی امر تھا اور اسی ہیجان نے انہیں پچھلی صدی سے ایک دوسری انتہا پر لا کھڑا کیا ہے، اب وہ تمدن کی موجودہ شکل کو اپنے لائف اسٹائل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور مسلم تمدن و معاشرت کو بھی اسی شکل میں ڈھالنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ مسلمانوں کے طرز زندگی کواپنے لائف اسٹائل کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ ایک مسلمان خاندان ہجرت کرنے اور امریکہ، یورپ، کینڈا یا آسٹریلیا وغیرہ میں بسنے کے باوجود بھی خاندانی و تمدنی لحاظ سے اتنی جلدی تبدیل نہیں ہوتا، اس لیے مغرب کے منصوبہ سازوں نے این جی اوز اور اپنے کارندوں کی مدد سے سورس (Source) یعنی بنیادوں (Roots) پر کاری ضربیں لگانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مسلم ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص یہ فیصلہ کیا کہ آزادی نسواں کو استعمال کرتے ہوے ان معاشروں کا اسلامی تشخص اور کلچر ختم کر دیا جائے، عورت کو حقوق کے نام پر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے، اسے بازار اور منڈی میں دیگر جنسوں کی طرح برائے فروخت رکھ کر مردوں کی ہوس و پیاس بجھانے کا ذریعہ بنا دیا جائے، اور اس سے اپنے سرمایہ اور لذتوں کو فروغ دیا جائے۔

اور بالآخر اسلامی تہذیب و تمدن کو مغربی رنگ میں رنگ دیا جائے۔
یہاں ذرا رک کر سوچئیے ، کہ میرا جسم میری مرضی اور اس طرح کے دیگر نعروں کا حقوق عورت سے کیا تعلق ہے؟ یہ جسم تو اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، اس امانت کی حفاظت ہر مرد و عورت کا فرض ہے، کیا امانت کا تصرف بھی امانت سپرد کرنے والے کی مرضی و منشا سے نہیں ہونا چاہئے؟ اللہ تعالی نے انسان کو یقیناً اسے استعمال کا اختیار دیا ہے لیکن یہ اختیار آخرت میں امتحان کے ساتھ مشروط ہے، کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں ہے کہ نہ تو انسان اپنے پیدا ہونے پر قادر تھا، نہ ہی اپنی شکل و صورت کے وجود میں آنے پر، اور نہ ہی اپنی موت پر۔

درحقیقت پیدائش اور موت کے درمیان کی مدت ایک مہلت عمل ہے۔اسی میں سارا امتحان ہے۔ جہاں تک حقوق انسانی کا تعلق ہے وہ کائنات کے تخلیق کرنے والے نے متعین فرما دئیے ہیں۔ اگر سب ان حقوق و فرائض کی پاسداری کریں تو کہیں مسائل پیدا نہ ہوں۔ اسلام نظام عدل کا تقاضا کرتا ہےاور اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں مسلمانوں کو امت وسط سے تعبیر کیا ہے۔

اسلام نے حقوق و فرائض کی بنیاد بھی عدل و انصاف اور اعتدال و توسط کے اصولوں پر رکھی ہے۔ اسلام کی رو سے مرد و عورت کو ایک دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے ۔ اللہ تعالی کے نزدیک برتری کا واحد معیار تقوی ہے۔ تہذیب و تمدن اور معاشرت کے وجود میں آنے کیلیے مرد و خواتین دونوں کا کردار اس کی ساخت اور جبلت کے مطابق متعین فرمایا ہے۔ بدقسمتی سے زمانہ جاہلیت اور قبائلی روایات کو بھی اسلام سمجھ لیا گیا ہے۔

قرآن حکیم میں مرد و خواتین دونوں کے حقوق بصراحت بیان کر دیے گئے اصل خرابی قانون الہی کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے مقابلے میں اپنی حجتیں تلاش کرنا ہے۔ اسلام نے تمدن کے جو اصول متعین کیے ہیں وہ فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام انسانوں کے اخلاق کی پاکیزگی ، تطہیر اور تزکیہ کیلیے آیا ہے ، قرآن حکیم میں انبیاء کی بعثت کا مقصد بھی تزکیہ انسانی اور علم وحکمت کی تعلیم قرار دیتا ہے، اسلام معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کی مذمت کرتا ہےاور اسے انسان کی اخلاقی تباہی اور بربادی کا بڑا ہتھیار تصور کرتا ہے، اسی لیے وہ مرد و عورت دونوں کو فحاشی و عریانی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے جبکہ گمراہی کیلیے اسے شیطان و طاغوت کا سب سے بڑا آلہ گردانتا ہے۔

قرآن حکیم مرد و عورت دونوں کو نگاہوں کی پاکیزگی اختیار کرنے کاحکم دیتا ہے جسے غض وبصر کہا گیا ہے۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور میرے دین کا اخلاق حیا ہے۔ کیا اس وصف و اخلاق کی اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے حفاظت کرنا ایک مسلمان کی ذمہ داری نہیں ہے؟
کیا یورپ میں انیسویں صدی میں عورتوں کے حقوق آزادی کی تحریک اس لیے شروع کی تھی کہ سرمایہ دار اور ہوس پرست عورت کو منڈی کی ایک جنس کے طور پر استعمال کریں اور اس سے اپنی دولت کے انبار میں اضافے کا سب سے بڑا ذریعہ؟ آج حالت یہ ہے کہ وہاں معاشرتی و خاندانی نظام کے تارو پود بکھر چکے ہیں؟ آج مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کیلیے اصل چیلنج اپنے خاندانی نظام اور اقدار کا تحفظ بن چکا ہے۔

وہاں بسنے والا ہر باشعور اپنی آئندہ نسل کی عصمت و حفاظت کیلیے فکرمند پایا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے اور پورے نظام سے بحثیت مجموعی مزاحمت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یقیناً قابل ستائش ہے وہ لوگ جو اس معاشرے میں رہتے ہوئے دین کی طرف راغب ہیں اور اپنے خاندانی نظام اور اقدار کو قائم رکھنے کیلیے کوشاں بھی۔
پاکستان ایک مسلم ملک ہے؟ جہاں ۹۸ فیصد لوگ مسلمان ہے، ملک ایک نظریاتی اساس پر قائم ہوا ہے۔

کیا ہم اس بنیاد کو منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ کیا ہم بھی اسی تباہی کی طرف قدم اٹھانا چاہتے ہیں جس کا شکار مغرب ہو چکا ہے۔ جہاں تک قانون میں سقم کا تعلق ہے انہیں دور ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔ عورت کو جو عزت دین اسلام نے دی اس کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ آئین پاکستان خواتین کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے، اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری عدالتیں اور حکومت ان حقوق کی پاسداری اورعملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ خانگی زندگی سے لیکر سوسائٹی میں کہیں بھی عورت کا استحصال نہ ہو۔

کہیں کوئی درندہ صفت ریپ نہ کر سکے، ایک عورت چترال سے لیکر کراچی تک اکیلے سفر کرے تو اسے کسی کا خوف نہ ہو، کوئی اس کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کر سکے۔ گھریلو تشدد کا خاتمہ ہو ، تعلیم کی مکمل آزادی ہو، ملازمت پر عورت کو مکمل تحفظ ہو، وراثت میں اس کے حصے کو یقینی بنایا جائے، اکیلی اور بغیر ملازمت یا کاروبار نہ ہونے کی صورت میں ریاست اس کا وظیفہ مقرر کرے۔ نہ کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ دے کر اسے مردوں کی ہوس رانی اور نا جائز دولت کمانے کا دھندہ بنا دیا جائے۔فَاعْتَبِـرُوْا يَآ اُولِى الْاَبْصَارِ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :