کرونا وائرس اور انسانیت کی آزمائش

اتوار 12 اپریل 2020

Muhammad Ijaz-Ul-Haq

محمداعجازالحق

کرونا وائرس اور انسانیت کی آزمائش۔
کیا چند ماہ قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ دینا اچانک اس قدر بے یقینی اور خوف و ہراس میں مبتلا ہو جائے گی؟ اورکرہ ارض میں بسنے والے تمام انسان بلاتخصیص رنگ و نسل و قوم ایک غیر محسوس اور عام آنکھ سے نہ نظر آنے والے جرتومے کے سامنے بے بسی و لاچارگی کی عملی تصویر بن جائیں گے؟ دینا کے انتہائی ترقی یافتہ شہر نیو یارک، لندن ، ٹورنٹو، روم، پیرس، دبئی وغیرہ ویرانگی اور جنگل کا سماں پیش کر رہے ہونگے؟ اور انسان کے اپنے اعضاء ہی اس کیلیے مشتبہ و مشکوک ہو جائینگے؟ اس نئے پیدا ہونے والے جرثومے، جس کو ناول کرونا وائرس یا کوڈ ۱۹ کا نام دیا گیا ہے، دسمبر ۲۰۱۹ میں چین کے شہر وہان سے پھیلنا شروع ہوا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہان میں تباہی پھیلانے کے بعد اس وقت پوری دینا میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے، اور کوڈ ۱۹ ایک عالمی وبا کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔

(جاری ہے)

آجکل کی دینا چونکہ ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور سیر و سیاحت عام ہونے کی وجہ سے وبا کا پھیلنا اور بھی آسان ہو گیا ہے ، اس لیے آج کے دور میں وبا کا پھیلنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔ اس وقت امریکہ، اٹلی، اسپین ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، بلجئم، ایران، ہالینڈ وغیرہ سمیت تقریباً دو سو سے زائد ممالک میں اموات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہر روز نئے کیسز رجسٹرد ہو رہے ہیں، اور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اموات کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ اس بیماری سے متاثرین کی تعداد ایک اشاریہ سات ملین سے بڑھ چکی ہے۔

اور ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر اس وبا پر جلد قابو نہ پایا گیا تو تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ عالمگیر وبا عالمی بحران کی صورت اختیار کر سکتی ہے، جو کہ بہت بڑے انسانی المیہ کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وبا کے خوفناک ہونے کی اصل وجہ اس کا عمودی پھیلاؤ (Exponential Growth) ہے۔ چونکہ یہ وبا ایک انسان سے دوسرے انسان کو چھونے یا فضا میں پہلے سے موجود جرثوموں کے اختلاط سے منتقل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک گھر میں رہنے والے یا دفتر میں ایک ساتھ کام کرنے والے بھی ایک دوسرے کے ساتھ ملنے سے گھبرا رہے ہیں اور ان کے درمیان ہر وقت خوف کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔

مصافحہ و معانقہ تو دور کی بات ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ کم از کم ایک میٹر سے کم فاصلے پر کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر بات نہیں کرسکتے۔ معاشرتی ضوابط یعنی سوشل نارمزبدل چکے ہیں، ابتک کی سائنسی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ وبا ہاتھ ملانے اور چھینکنے سے پھیلتا ہے، کیونکہ اس کے جراثیم چھوٹے چھوٹے قطروں کی شکل میں فضا میں معلق رہتے ہیں یا اجسام کی سطح پر بیٹھ جاتے ہیں ، پھر جو افراد اس کی زد میں آتے ہیں وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں، اب اگر تو متاثرہ انسان کا مدافعتی نظام مضبوط ہو تو وہ جلد صحتیاب ہو جاتا ہے، اور اگر مدافعتی نظام مضبوط نہ ہو یا پہلے سے صحت کے مسائل موجود ہوں تو یہ پھیپھڑوں اور نظام تنفس پر بہت جلد حملہ آور ہو جاتا ہے۔

جس سے بچنا پھر کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ابھی تک کی رپورٹس کے مطابق زیادہ عمر کے افراد اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ جبکہ کم عمر کے افراد بھی اس بیماری سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہتے۔
ابھی تک اس وبا کی ویکسین یا مستند طریقہ علاج دریافت نہیں ہو سکا اس لیے اس وبا کو کنٹرول کرنے کا واحد حل احتیاطی و حفاظتی تدابیر ہیں ۔ تمام طبی ماہرین اور ڈبلیو ایچ او انہی تدابیر کو اپنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

طبی ماہرین بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو دن میں بار بار صابن کے ساتھ تقریباً چالیس سیکنڈ کیلیے دھوئیں یا سینٹائزر کا استعمال کریں، پبلک جگہوں اور بھیڑ میں جانے سے مکمل کریز کیا جائے، باہر نکلتے ہوئے چہرے پر ماسک پہنا جائے، زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں اپنے آپ کو عزلت میں رکھا جائے تاکہ خود بھی اور دوسرے لوگ اس وائرس کے مہلک اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔

ان احتیاطی تدابیر کے پیش نظر اس وقت تقریباً تمام ممالک نے لاک ڈاؤن اور کرفیو کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے، تاکہ لوگوں میں سوشل رابطہ کم سے کم ہو سکے۔ بڑے مالز ، شاپنگ سنٹرز، مساجد، چرچیں اور دیگر عبادت گاہیں، ثقافتی سنٹرز، کھیلوں کے میدان، سکولز، مدرسے، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں، دفتروں میں حاضری کم کر دی کئی ہے، ائرپورٹس اس وقت تقریباً تمام ممالک میں بند پڑے ہوے ہیں، تجارت اور کاروبار زندگی عملی طور پر اپاہج اور مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، ایسی صورت میں اگر کرفیو یا لاک ڈاؤن زیادہ عرصہ رہتا ہے تو معاشی طور پر کمزور ممالک بہت تیزی سے معاشی بحران اور کساد بازاری کا شکار ہو سکتے ہیں، کوئی ملک میں زیادہ لمبا عرصہ لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا، ایسی حالت میں تمام ممالک تو یکجا ہو کر ڈبلیو ایچ او کی رہنمائی میں اپنے اپنے حالات کے مطابق پوری منصوبہ بندی کے ساتھ بھر پور ایکش پلان بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

تاکہ دینا کو غذائی قلت اور قحط کا سامنا نہ کرنا پڑے- اس کے ساتھ دینا بھر کے طبی ماہرین کو مل کر مکمل یکسوئی کے ساتھ اس کے علاج کی جستجو کرنا ہوگی تاکہ اس وبا پر جلد سے جلد قابو پایا جا سکے۔
اب ہم تصویر کے دوسرے رخ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو بلا شبہ اس کائنات کا ایک تخلیق کرنے والا ہے، اور یہ کائنات ایک نظم کے تحت چل رہی ہے، جب کبھی بھی کوئی مخلوق حدود و قیود سے بڑھ جاتی ہے تو قدرت حرکت میں آتی ہے اور اس کو مختلف انداز میں تنبہہ و انذارکرتی ہے، تاکہ انسان قدرت کے بنائے ہوے نظام میں خلل پذیر نہ ہو۔

آج ہم دیکھتے ہیں ایک طرف تو انسان نے ترقی کی معراج حاصل کر لی ہے، مگر دوسری طرف بحثیت مجموعی افراد و اقوام نے اپنا تعلق اپنے خالق سے جوڑنے کی بجائے خودی سری و خود غرضی، غفلت واعراض ، غرور و گمھنڈ، نا انصافی، قتل و غارت اور فطرت کے بنائے ہوے اصولوں کی خلاف ورزی سے جوڑا ہے۔ جس نے معاشروں میں عدم توازن پیدا کر دیا ہے۔کیا یہ بات غور و فکر کی نہیں ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے انسان کی چیرہ دستیوں، بد اعمالیوں، بد مستیوں ، خلاف فطرت طریقوں کو اپنانے اور طاقت و غرور کا گھمنڈ کرنے والے حکمرانوں کیلیے بڑی تنبہہ نہیں ہے؟ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ آج تک کوئی شخص یا قوم بھی ایسی گذری ہو جس نے سر کشی و بغاوت اور غفلت و اعراض کر کے زندگی کی راحتں اور رونقیں سمیٹی ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر آج کا انسان کیوں سمجھتا ہے، کہ وہ آگ میں ہاتھ ڈالے گا تو جلے گا نہیں، پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر چھلانگ لگائے گا تو وہ زندہ و سلامت بچ جائے گا، اسی طرح اگر وہ نافرمانیوں اور معصیت و گناہ کا رویہ اختیار کرے گا تو تباہی و بربادی نہیں آئے گی؟ یقیناً یہ نافرمانیاں اللہ کے عذاب و تنبہات کو دعوت دیتی ہیں۔

ہمیشہ سے ایسا ہی ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اور یہی یاد دہانی قرآن حکیم میں باربار کرائی گئی ہے کہ کیا تم تک اللہ کی نشانیاں نہیں پہنچیں؟ سورہ توبہ آیت نمبر ۷۰ میں ارشاد فرمایا،
ألم يأتهم نبأ الذين من قبلهم قوم نوح وعاد وثمود وقوم إبراهيم وأصحاب مدين والمؤتفكات أتتهم رسلهم بالبينات فما كان الله ليظلمهم ولكن كانوا أنفسهم يظلمون۔


کیا انہوں نے ان لوگوں کا حال نہیں سنا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، مثلاً قوم نوح و عاد وثمود اور قوم ابراھیم و اصحاب مدین اور وہ لوگ جن کی بستیاں الٹ دی کئیں؟ ان سب کے پاس اللہ کے رسول آئے اور انہوں نے ان کو راہ حق کی نشانیاں دکھلائیں ، مگر انہوں نے بد اعمالیوں کی راہ اختیار کی اور اس کی پاداش میں مٹا دیے گئے۔ اور اللہ تو کسی پر ظلم نہیں مگر ان بد بختوں نے خود ہی اپنی ہلاکت کا سامان فراہم کیا۔


کیا ان گذرے ہوئے واقعات و حوادث میں آج کے انسان کیلیے کوئی سبق پوشیدہ نہیں ہے؟ اللہ تعالی کی قوت و جلال کا ظہور ہمیشہ نشانیوں سے ہی ہوتا ہے۔ یہی سنت الہی ہے، اور اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالی جھنجھوڑنے کیلیے اپنی مخلوق میں سے کسی سے بھی یہ کام لے سکتا ہے، یہ سب مشیت ایزدی کے تابع ہیں، قرآن حکیم میں موسی اور خضر کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے، اسی طرح ایک مچھر سے نمرود کا غرور خاک میں ملا دیا اور آج وہ انسانیت کیلیے نشان عبرت ہے۔

اور اب اس نقطہ کو کون سمجھتا ہے، ہر ایک کےاپنے اپنے غور و فکر کے انداز پر منحصر ہے۔
کیا یہ بات سوچنے کی نہیں ہے کہ کسطرح آج کی ترقی یافتہ سائنسی دینا میں ایک خوردبینی آنکھ سے ننظر آنے والی، بظاہر غیر محسوس چیز کے ساتھ ہم کرفیو اور لاک ڈاؤن کی شکل میں بندوقیں تانے جنگ کر رہے ہیں، اور ہماری بے بسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں، مگر انسان کی بدقسمتی دیکھیے، وہ کیسے خدا کے عدم وجود کے بارے میں ، وحی اور آخرت کے بارے میں سوال کرتا ہے اور تصور کرتا ہے کہ بس یہی دینا ہے، اور مابعدطبیعات اشیاء کا کوئی وجود نہیں، آج قدرت نے جھنجھوڑ کر بتا دیا ہے کہ میرے سامنے تمھاری کوئی اوقات نہیں ، میں جب چاہوں پل بھر میں تمھارے تکبر اور ترقی کے زعم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہوں ، خواہ تم اپنے تئیں جتنی چاہے ترقی کی منزلیں طے کر لو۔


اب ذرا رک کر غور کیجیے، کہ ایسی صورت حال میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اس کیلیے ہمیں قرآن و سنت سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرتی آفات اور وباؤں سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علی وسلم نے کیا طرز عمل اختیار کیا ہے اور ہمیں اس سے متعلق کیا ہدایت فرمائی ہے، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی صورت میں مکمل احتیاطی و حفاظتی تدابیر اور علاج و معالجے کا حکم دیا ہے۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی اور طہارت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ طہارت کو نصف ایمان کہا ہے۔ اور ساتھ ہی انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرے، نماز سے مدد لے، توبہ اور استغفار کر ے اور اسی سے مدد و استعانت طلب کرے کہ وہ اس آفت یا وبا کو رفع دفع فرما دئے- اور اپنی مخلوق کے ساتھ رحم و کرم والا معاملہ کر دے۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے بار بار توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ سورتہ نجم آیت نمبر ۳۲ میں فرمایا ،
ٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٰحِشَ إِلَّاٱللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَٰسِعُ ٱلْمَغْفِرَةِ-
وہ لوگ ایسے ہیں کہ کبیرہ گناہوں سے اور فحاشی کی باتوں سے بچتے ہیں، سوائے صغیرہ گناہوں گے جو بلا قصد سرزد ہو جاتے ہیں، بیشک تمھارے رب کی مغفرت بےحد وسیع ہے۔


سورہ آل عمران آیت نمبر ۱۳۵ میں ارشاد ہوا،
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔
اور ایسے لوگ جن کا حال یہ ہےکہ اگر کبھی بے حیائی کا کام ان سے سر زد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو انہیں اللہ یاد آجاتا ہےاور وہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں ۔

کیونکہ اللہ کے سوا کون ہے جو ان کے گناہوں کو معاف کر سکتا ہو؟ اور جانتے بوجھتے اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔
حضرت علی رضی اللہ سے روایت ہے، جس میں فرمایا، تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو مصیبت میں مبتلا ہو کر توبہ و استغفار کر لیں۔
سورہ انفال کی آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد فرمایا،
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ۔


اس وقت تک اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہیں تھا، جب تک آپ صلی اللہ و علیہ وسلم ان کے درمیان موجود تھے، اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے۔
اسی آیت مبارکہ کی روشنی میں صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین فرمایا کرتے تھے کہ ہماری دو پناہ گاہیں تھیں، نبی علیہ صلوہ و سلام کے پردہ فرمانےکے بعد ایک پناہ گاہ رخصت ہو گئی ہے، جبکہ دوسری پناہ گاہ استغفار کی شکل میں ابھی باقی ہے، اور اللہ تعالی کا ہم پرکتنا فضل وکرم ہے کہ پوری امت اور انسانیت کیلیے توبہ و رجوع الی للّٰہ اور استغفار کا دروازہ ہمیشہ سے کھلا ہے۔

اور صحابہ فرماتے اگر یہ بھی نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے۔
قرآن حکیم کی آخری مکمل سورہ نصر میں اللہ تعالی نے اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے پوری امت کو اللہ کی تسبیح و استغفار اور توبہ کا حکم دیا ہے۔
کیا آج انسانیت نے خدا سے اور اس کے بنائے ہوے فطری طریقوں سے منہ نہیں موڑ لیا ہے؟ کیا انسان چوری, سینہ زوری و ڈاکہ زنی، ملاوٹ، مکر و فریب، فحاشی و بے حیائئ، کینہ و حسد اور دھوکہ دہی کا خوگر نہیں بن چکا ہے؟ کیا طاقتور ممالک نے انصاف کے اصولوں کو روندتے ہوے کمزور ممالک کو ملیامیٹ نہیں کیا؟ کیا شام و عراق و فلسطین و کشمیر کے بچوں کی چیخ و پکار اللہ تعالی تک نہیں پہنچی ہے؟ کیسے افغانستان، عراق و شام، فلسطین و کشمیر اور روہنگیا کے مسلمانوں پر جبر کے پہاڑ توڑے گئے۔

کیا ان سب بداعمالیوں کے بعد بھی ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہے تو اس سے زیادہ اپنے آپ کو فر یب اور دھوکہ دینے والی شے کونسی ہوگی۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے رب کو دوبارہ منائیں؟ اس کی طرف پلٹیں اور اس سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ بلاشبہ یہ وقت اللہ تعالی سے انفرادی و اجتماعی توبہ و استغفار کرنے کا ہے۔ کرونا وائرس کا پھیلنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ قدرت کی طرف سے پوری انسانیت کیلیے تنبیہ ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس نے پوری انسانیت اور عالمی تمدن کے علم برداروں کے گمھنڈ و غرور کو خاک میں ملا دیا ہے۔

جو اس دینا پر خدا بنے بیٹھے ہیں اور جنہوں نے ظلم و ناانصافی کا بازار گرم کر رکھا تھا، علاوہ ازیں یہ انفرادی سطح پر بچے ہمارے اعمال کی جانچ کا امتحان ہے، کہ کس طرح ہم قدرت کے بتائے ہوے رستے سے ہٹ کر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا اور کون برے عمل۔

اللہ تعا لی ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرمائے۔ یقیناً اللہ تعالی کے رحم و کرم سے یہ مشکل وقت گز ر جائے گا مگر اس کے بعد اصل سبق یہ ہوگا کہ کیا انسان نے انفرادی طور پر اور اقوام عالم نے اجتماعی سطح پر اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟ کیا اپنے رب سے اپنا رشتہ و تعلق مضبوط کیا ہے یا نہیں؟ باقی سائنسی حل اور توجہہات و تحقیقات تو آئیں گے ہی ، اس پر عمل پیرا بھی ہونا چاہئے اور جستجو کیلیے کمر بستہ بھی، کیونکہ ہمارا ایمان ہے ہر چیز مشیت ایزدی کے تابع ہے، تدبیر و مشقت اور دوا و دعا بھی اسی کا حکم ہے، دوا و دعا دونوں ساتھ ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔

بحثیت مسلمان ہمارا انداز فکر بھی یہی ہونا چاہئے، اور اس کو مشیت الہی تسلیم کرتے ہوتے تمام احتیاط و تدابیر کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔ اور اس وبا کے طریقہ علاج کی جستجو اور دکھی انسانیت کی خدمت میں ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کرنا چاہئے تاکہ ہم بھی انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
آؤ، اپنے رب کی طرف لپکیں، اور پلٹ کر اسی سے اپنا رشتہ استوار کرلیں، جس سے کٹ کر ہم نے گمراہیوں، پستیوں اور ذلتوں کی راہ اختیا ر کی تھی کہ شاید اس کو ہم پر رحم آجائے۔ بیشک وہ بہت معاف فرمانے والا ہے۔ أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :