
کشمیر کا مقدمہ !
جمعرات 15 اگست 2019

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
برسوں پہلے گلوبلائزیشن کی اصطلاح جو معاشی اور اقتصادی جبر کے تحت ایجاد کی گئی تھی آج تہذیبی و سیاسی سطح پر امر واقعہ بن کر ہمارے سامنے موجود ہے ، ہم اسی عہد میں جی رہے ہیں ، دنیا ہر لمحے ہر کسی کے سامنے ہے ،صدیوں پہلے شکسپیئر نے کہا تھا دنیا ایک اسٹیج ہے جس میں ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے ،میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہوں گا، دنیا ایک اسٹیج ہے جس میں ہر فرد بیک وقت کھلاڑی بھی ہے اور تماشائی بھی،دنیا میں جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ دیکھ رہا ہے اور وہ جو کر رہا ہے دنیا اسے دیکھ رہی ہے ۔
اس مقدمے کے اثبات کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا مقدمہ دراصل عالمی اداروں کا امتحان ہے ،وہ ادارے جنہیں انسانیت کے اجتماعی شعور نے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیا تھا ، یہ ادارے ایک انداز سے عالمی امن کے ذمہ دار ہیں ، برسوں پہلے انسانی شعور نے جو فیصلہ دیا تھا ، دہائیوں بعد بھی وہ با لفعل امر واقعہ کا روپ نہیں دہا ر سکا ۔ کیا یہ اداروں کی نا اہلی ہے یا انسانی شعور تاحال کسی قیامت صغریٰ کا منتظر ہے ۔دنیا جب ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تو لازم تھا کہ مودی جیسے جاہلوں اور جنونی شخصیات کی تہذیب نفس کا اہتمام کیاجاتا ۔ افسوس مگرا یسا نہ ہو سکا ، اب بھی یہ ادارے اگر چند جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال اور ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ دنیا کسی نئی مصیبت سے دوچار ہو جائے ۔ ان اداروں کی ناکامی کے بعد جو جنگ ہو گی اس میں ہار جیت کسی کی نہیں ہو گی،دونوں طرف سے لاکھوں کروڑوں انسان اس جنگ کا ایندھن بنیں گے۔ اور اگر یہ جنگ ایٹمی ہتھیاروں تک طویل ہوتی ہے تو صرف برصغیرنہیں پوری دنیا اس کے اثرات کی زد میں ہو گئی ، اگر کوئی غلط فہمی میں ہے تو پاک بھارت ایٹمی جنگ کے نقصانات کو گوگل کر لے ۔ اس لیے میرا اضطراب یہی ہے کہ دنیا تجاہل عارفانہ کے رویے سے باہر نکل کرحالیہ واقعات کی درست تفہیم کا مظاہرہ کرے ۔
یہ عالمی اداروں اور مجموعی انسانی شعور کا مخمصہ تھا ، کشمیر ایشو کو دیکھنے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق عالم اسلام سے ہے ، خصوصا مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جن کے انڈیا کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں ، سرمائے کی اپنی نفسیات اور مجبوریاں ہوتی ہیں ، یہ سرحدوں کی قید سے آذاد اور مفادات کا اسیر ہوتا ہے ، گلوبلائزیشن کی اصطلاح اصلا سرمائے کی اسی نفسیات کے تناظر میں وضع کی گئی تھی ، وہ الگ بات ہے کہ آج اس اصطلاح کا استعمال ،اقتصادی کی بجائے ذرائع ابلاغ کے میدان میں ذیادہ ہوتا ہے ۔ سعودی عرب نے، انڈیا میں اربوں کھربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے ، دبئی اور متحدہ عرب امارات تو انڈیا ہی کی ایک ریاست معلوم ہوتے ہیں ، کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات میں بہت بڑے مندر کا افتتا ح کیا گیا ، مودی جیسے ذہنی مریض کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ،اکثر عرب ریاستوں میں بہت بڑی تعداد میں انڈین ورکر موجود ہیں ۔ اب ایسی صورتحال میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ ان عرب ریاستوں کا کردار سرمائے کے بوجھ تلے دب جائے گا یا یہاں سے خیر کا کوئی پہلو برآمد ہو سکتا ہے ۔ سرمایہ اپنی نفسیات اور ترجیحات کا تعین خود کرتا ہے ، اللہ کرے کہ میں غلط ہوں مگر میرا سوء ظن یہی ہے کہ یہاں سے سوائے مایوسی کے کچھ برآمد نہیں ہو گا ۔
کشمیر میں جوہو رہا ہے کیا یہ محض اتفاق یا ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کا رد عمل ہے یا اس کی وجہ کچھ اور ہے ، دانشوری کی سطح پر مختلف تجزیے کیے جا رہے ہیں ، میرا تاثر مگر یہ ہے کہ یہ سراسر نظریاتی تصادم ہے ، آپ اسے پلوامہ واقعے سے جوڑیں یا ٹرمپ ثالثی کا رد عمل قرار دیں مگر آخری تجزیئے کے طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ نظریاتی تصادم ہے۔انسانی تاریخ میں تصادم کی وجوہات مختلف رہی ہیں مگر نظریاتی تصادم سب سے خطرناک ثابت ہوا ہے ، اگر آپ آر ایس ایس کے نظریے اور حکمت عملی سے واقف نہیں تو آپ اس تصادم کی شدت کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ کوئی اس نظریے کی شدت کا اندازہ کرنا چاہے تو صرف اتنا جان لے کہ مہاتما گاندھی جیسے بے ضرر انسان کا قاتل یہی نظریہ تھا ۔ مودی آغاز شباب سے ہی آر ایس ایس کا متحرک رکن رہا ہے اب ایسے شدت پسندانہ نظریات کے حامل انسان سے کسی خیر کی توقع کیکر کے درخت سے انگور کھانے کی خواہش کا اظہار ہے ۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوبی ایشیائی عوام اور خصوصا خطہ برصغیر کے عوام کا اجتماعی شعور دنیا کی دیگر اقوام کی نسبت بہت پیچھے ہے ، یورپ جن راستوں سے گزر کر گلستان تک پہنچ گیا ہم ابھی ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں ، کیا یہ لازم ہے کہ انسان جنگوں اور لاشوں کے انبار سے عبرت کی چھٹانک حاصل کرے،کیا ایسا ممکن نہیں کہ انسانیت کا اجتماعی شعور جن تجربات سے گزر چکا ان سے نصیحت حاصل کی جائے ، یورپ نے دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کی تباہی کے بعد جو سبق اخذ کیا ، کیا لازم ہے کہ ہم بھی وہی تاریخ دہرائیں ، لقمان حکیم کی روایت تو یہی ہے کہ بیوقوفو ں کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے ، ہاں کوئی خود بیوقوف بننا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے ۔
کیا اب وقت نہیں آیا کہ دنیا حقیقت پسندی کا اظہار کرے، مسلم شدت پسندی کا واویلا کرنے کی بجائے ہندو انتہا پسندی اور عیسائی انتہاپسندی (سانحہ نیوزی لینڈ)کا جائزہ لیا جائے ، بلکہ انتہاپسندی کو کسی مذہب سے جوڑنے کی بجائے اسے ایک رویے کے طور پر ڈیل کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور دنیا تجاہل عارفانہ سے کام لیتی رہے گی تو یہ نظام ذیادہ دیر تک نہیں چلے گا ،اسے چاہئے کہ کسی دوسرے سیارے پر زندگی کا انتظام و انصرام کر لے۔ ہم عالمگیریت کے عہد میں جی رہے ہیں ، کشمیرکا مقدمہ صرف اہل کشمیر یا پاکستان کا مقدمہ نہیں یہ اس عہد کا مقدمہ ہے ، اگر انسانوں کا اجتماعی شعور اس کا نوٹس نہیں لیتا تو اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہیں گے ، یہ اس عہد اور عالمگیریت کا بدیہی تقاضا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.