کشمیر کا مقدمہ !

جمعرات 15 اگست 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کشمیر کا مقدمہ کیا صرف کشمیراوراہل پاکستا ن کا مقدمہ ہے ؟ اگر کوئی اس وہم میں مبتلا ہے تو وہ تاریخ کی غلط سمت پر کھڑا ہے ۔ کشمیر میں پچھلے چنددنوں سے جومشق ستم جاری ہے کیا دنیا اس سے بے خبر ہے ، شاید آج کے سوشل میڈیا دور میں ایسا ممکن نہیں ،ہاں دنیا اگر تجاہل عارفانہ سے کام لے تو وہ الگ بات ہے ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا کے بعض اداروں کی طرف سے بہت کچھ منظر عام پر آ چکا ، اکسیویں صدی کی دوسر ی دہائی کے گزرتے سالوں میں ، دنیا کے کسی بھی علاقے میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات بالقوہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ سات ارب انسانو ں کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکیں۔

سوال البتہ یہ ہے کہ کیا انسانیت کا اجتماعی ضمیر اور تہذیب حاضر کے فرزند حقیقت پسندانہ نظر اور منصفانہ مزا ج رکھتے ہیں اور کیا انسانیت کی اجتماعی دانش اور اس دانش کے ترجمان ادارے اہل کشمیر کی داد رسی اور ان کے حق خود ارادیت کے لئے آگے بڑھیں گے ۔

(جاری ہے)


برسوں پہلے گلوبلائزیشن کی اصطلاح جو معاشی اور اقتصادی جبر کے تحت ایجاد کی گئی تھی آج تہذیبی و سیاسی سطح پر امر واقعہ بن کر ہمارے سامنے موجود ہے ، ہم اسی عہد میں جی رہے ہیں ، دنیا ہر لمحے ہر کسی کے سامنے ہے ،صدیوں پہلے شکسپیئر نے کہا تھا دنیا ایک اسٹیج ہے جس میں ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے ،میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہوں گا، دنیا ایک اسٹیج ہے جس میں ہر فرد بیک وقت کھلاڑی بھی ہے اور تماشائی بھی،دنیا میں جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہ دیکھ رہا ہے اور وہ جو کر رہا ہے دنیا اسے دیکھ رہی ہے ۔

اس کے بعدبھی اگر کوئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ کشمیر کی صورتحال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے تو وہ اپنی سادگی میں جی رہا ہے ۔ یہ البتہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔
اس مقدمے کے اثبات کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا مقدمہ دراصل عالمی اداروں کا امتحان ہے ،وہ ادارے جنہیں انسانیت کے اجتماعی شعور نے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیا تھا ، یہ ادارے ایک انداز سے عالمی امن کے ذمہ دار ہیں ، برسوں پہلے انسانی شعور نے جو فیصلہ دیا تھا ، دہائیوں بعد بھی وہ با لفعل امر واقعہ کا روپ نہیں دہا ر سکا ۔

کیا یہ اداروں کی نا اہلی ہے یا انسانی شعور تاحال کسی قیامت صغریٰ کا منتظر ہے ۔دنیا جب ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تو لازم تھا کہ مودی جیسے جاہلوں اور جنونی شخصیات کی تہذیب نفس کا اہتمام کیاجاتا ۔ افسوس مگرا یسا نہ ہو سکا ، اب بھی یہ ادارے اگر چند جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال اور ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ دنیا کسی نئی مصیبت سے دوچار ہو جائے ۔

ان اداروں کی ناکامی کے بعد جو جنگ ہو گی اس میں ہار جیت کسی کی نہیں ہو گی،دونوں طرف سے لاکھوں کروڑوں انسان اس جنگ کا ایندھن بنیں گے۔ اور اگر یہ جنگ ایٹمی ہتھیاروں تک طویل ہوتی ہے تو صرف برصغیرنہیں پوری دنیا اس کے اثرات کی زد میں ہو گئی ، اگر کوئی غلط فہمی میں ہے تو پاک بھارت ایٹمی جنگ کے نقصانات کو گوگل کر لے ۔ اس لیے میرا اضطراب یہی ہے کہ دنیا تجاہل عارفانہ کے رویے سے باہر نکل کرحالیہ واقعات کی درست تفہیم کا مظاہرہ کرے ۔


یہ عالمی اداروں اور مجموعی انسانی شعور کا مخمصہ تھا ، کشمیر ایشو کو دیکھنے کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق عالم اسلام سے ہے ، خصوصا مشرق وسطیٰ کے وہ ممالک جن کے انڈیا کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں ، سرمائے کی اپنی نفسیات اور مجبوریاں ہوتی ہیں ، یہ سرحدوں کی قید سے آذاد اور مفادات کا اسیر ہوتا ہے ، گلوبلائزیشن کی اصطلاح اصلا سرمائے کی اسی نفسیات کے تناظر میں وضع کی گئی تھی ، وہ الگ بات ہے کہ آج اس اصطلاح کا استعمال ،اقتصادی کی بجائے ذرائع ابلاغ کے میدان میں ذیادہ ہوتا ہے ۔

سعودی عرب نے، انڈیا میں اربوں کھربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے ، دبئی اور متحدہ عرب امارات تو انڈیا ہی کی ایک ریاست معلوم ہوتے ہیں ، کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات میں بہت بڑے مندر کا افتتا ح کیا گیا ، مودی جیسے ذہنی مریض کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ،اکثر عرب ریاستوں میں بہت بڑی تعداد میں انڈین ورکر موجود ہیں ۔ اب ایسی صورتحال میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ ان عرب ریاستوں کا کردار سرمائے کے بوجھ تلے دب جائے گا یا یہاں سے خیر کا کوئی پہلو برآمد ہو سکتا ہے ۔

سرمایہ اپنی نفسیات اور ترجیحات کا تعین خود کرتا ہے ، اللہ کرے کہ میں غلط ہوں مگر میرا سوء ظن یہی ہے کہ یہاں سے سوائے مایوسی کے کچھ برآمد نہیں ہو گا ۔
کشمیر میں جوہو رہا ہے کیا یہ محض اتفاق یا ٹرمپ کی ثالثی پیشکش کا رد عمل ہے یا اس کی وجہ کچھ اور ہے ، دانشوری کی سطح پر مختلف تجزیے کیے جا رہے ہیں ، میرا تاثر مگر یہ ہے کہ یہ سراسر نظریاتی تصادم ہے ، آپ اسے پلوامہ واقعے سے جوڑیں یا ٹرمپ ثالثی کا رد عمل قرار دیں مگر آخری تجزیئے کے طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ نظریاتی تصادم ہے۔

انسانی تاریخ میں تصادم کی وجوہات مختلف رہی ہیں مگر نظریاتی تصادم سب سے خطرناک ثابت ہوا ہے ، اگر آپ آر ایس ایس کے نظریے اور حکمت عملی سے واقف نہیں تو آپ اس تصادم کی شدت کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ کوئی اس نظریے کی شدت کا اندازہ کرنا چاہے تو صرف اتنا جان لے کہ مہاتما گاندھی جیسے بے ضرر انسان کا قاتل یہی نظریہ تھا ۔ مودی آغاز شباب سے ہی آر ایس ایس کا متحرک رکن رہا ہے اب ایسے شدت پسندانہ نظریات کے حامل انسان سے کسی خیر کی توقع کیکر کے درخت سے انگور کھانے کی خواہش کا اظہار ہے ۔


اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوبی ایشیائی عوام اور خصوصا خطہ برصغیر کے عوام کا اجتماعی شعور دنیا کی دیگر اقوام کی نسبت بہت پیچھے ہے ، یورپ جن راستوں سے گزر کر گلستان تک پہنچ گیا ہم ابھی ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں ، کیا یہ لازم ہے کہ انسان جنگوں اور لاشوں کے انبار سے عبرت کی چھٹانک حاصل کرے،کیا ایسا ممکن نہیں کہ انسانیت کا اجتماعی شعور جن تجربات سے گزر چکا ان سے نصیحت حاصل کی جائے ، یورپ نے دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کی تباہی کے بعد جو سبق اخذ کیا ، کیا لازم ہے کہ ہم بھی وہی تاریخ دہرائیں ، لقمان حکیم کی روایت تو یہی ہے کہ بیوقوفو ں کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے ، ہاں کوئی خود بیوقوف بننا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے ۔


کیا اب وقت نہیں آیا کہ دنیا حقیقت پسندی کا اظہار کرے، مسلم شدت پسندی کا واویلا کرنے کی بجائے ہندو انتہا پسندی اور عیسائی انتہاپسندی (سانحہ نیوزی لینڈ)کا جائزہ لیا جائے ، بلکہ انتہاپسندی کو کسی مذہب سے جوڑنے کی بجائے اسے ایک رویے کے طور پر ڈیل کیا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور دنیا تجاہل عارفانہ سے کام لیتی رہے گی تو یہ نظام ذیادہ دیر تک نہیں چلے گا ،اسے چاہئے کہ کسی دوسرے سیارے پر زندگی کا انتظام و انصرام کر لے۔

ہم عالمگیریت کے عہد میں جی رہے ہیں ، کشمیرکا مقدمہ صرف اہل کشمیر یا پاکستان کا مقدمہ نہیں یہ اس عہد کا مقدمہ ہے ، اگر انسانوں کا اجتماعی شعور اس کا نوٹس نہیں لیتا تو اس کے اثرات کسی ایک خطے تک محدود نہیں رہیں گے ، یہ اس عہد اور عالمگیریت کا بدیہی تقاضا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :