دو گزارشات !

اتوار 4 اکتوبر 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

نکولائی چاوٴشسکو رومانیہ کے صد ر تھے ، انہوں نے زندگی کا آغاز رومانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کے معمولی رکن کی حیثیت سے کیا تھا ، اس کے بعد وہ مرکزی کمیٹی کے رکن بنے ، وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1965 میں رومانیہ کے حکمران بن گئے۔ انہوں نے 1965 سے 1989 تک رومانیہ پر حکومت کی ، یہ زبردست قسم کے ڈکٹیر تھے ، انہوں نے مخالفین کو کچلنے کے لیے خفیہ پولیس بنائی،اپوزیشن کو جیلوں میں بند کیا اور پورے 24 سال رومانیہ پر حکومت کی۔

اس کے ساتھ ہی یہ اسی کی دہائی کے مقبول ترین لیڈر تھے اور اس مقبولیت کی وجہ ان کا عوامی پن تھا ، یہ کسی بھی وقت عوام میں چلے جاتے اور عوام میں گھل مل جاتے تھے، ان کی یہ مقبولیت رومانیہ کے اندر اور باہر دونوں جگہ قابل رشک تھی۔

(جاری ہے)

اسی کی دہائی میں پاکستان میں صدر ضیاء الحق کا طوطی بولتا تھا اور ضیاء الحق چاوٴشسکو کے فین تھے۔ 1986 میں ایک کانفرنس کے دوران دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا ، ضیاء الحق نے چاوٴشسکو سے ان کی مقبولیت کا راز پوچھا تو انہوں نے بتایا : ”آپ عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رکھیں ، آپ میری طرح عوام میں گھل مل جایا کریں اور بھیس بدل کر اپنے بارے میں عوامی رائے جاننے کی کوشش کریں۔

“ ضیاء صاحب کو یہ مشورہ اچھا لگا اور انہوں نے عوام سے براہ راست رابطہ کرنے کا عزم کر لیا۔ وہ واپس آئے اور سردیوں کی ایک رات عوام سے ملنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ، وہ سائیکل پر سوار ہوئے، چادر کی بکل اوڑھی اور راولپنڈی کی سڑکوں پر نکل پڑے ، راستے میں پولیس کا ناکہ تھا ، کانسٹیبل نے سائیکل سوار کو روک لیا اور اکھڑے لہجے میں پوچھا :”اوئے تم رات کے تین بجے حساس علاقے میں کیوں گھوم رہے ہو“ سائیکل سوار نے متانت سے جواب دیا :” کیوں سر مجھ سے کیا غلطی ہو ئی ،کیا رات کے وقت سڑک پرنکلنا جرم ہے “ کانسٹیبل کو سائیکل سوار کی زبان درازی برداشت نہیں ہوئی اور اس نے سائیکل سوار کو مرغا بننے کا حکم دے دیا، سائیکل سوار نے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی تو پولیس اہلکاروں نے اسے ڈنڈے دکھانا شروع کر دئیے ، مجبوراً سائیکل سوار کو مرغا بننا پڑا، یہ عوام سے براہ راست رابطہ ذرا مشکل تھا لہذا سائیکل سوار نے کان چھوڑے ، منہ سے چادر ہٹائی اور تحکمانہ لہجے میں اپنا تعارف کروایا :”جناب میں پاکستان کا صدر ضیاء الحق ہوں “ پولیس اہلکاروں نے قہقہہ لگایا اور پنجابی میں بولے: ”ایک ضیاء الحق کا عذاب کم تھا کہ تم دوسرے ضیاء الحق بننے کے چکر میں ہو ‘ خبردارکان نہیں چھوڑنے “ وہ کافی دیر تک پولیس اہلکاروں کو اپنے صدر ہونے کا یقین دلاتے رہے لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ، جب کافی دیر گزر گئی تو پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ ایک دلچسپ ڈیل کی‘ انہیں کہا گیا کہ وہ اگر کان چھوڑنا چاہتے ہیں توجنرل ضیاء الحق کے بارے میں کوئی دلچسپ لطیفہ سنائیں، جنرل صاحب کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا چنانچہ وہ سخت سردی میں سڑک پر کھڑے کانسٹیبلوں کو اس وقت تک اپنے خلاف لطیفے سناتے رہے جب تک پروٹوکول اور سیکورٹی کا عملہ ان تک نہیں پہنچ گیا۔

اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اس کے بعد کبھی عوام کی ڈائریکٹ رائے جاننے کی غلطی نہیں کی۔ہم واپس آتے ہیں نکولائی چاوٴ شسکو کی طرف ، 1989 میں رومانیہ کے ایک شہرٹمی سوارامیں نسلی فسادات بھڑک اٹھے ، یہ چھوٹاسا گرو ہی مسئلہ تھا مگر حکومت کی ناقص حکمت عملی نے اسے ایک زبردست انقلا ب میں تبدیل کر دیا ، ملک بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے ، پولیس نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے گولی چلا دی ، 17 دسمبر 1989 میں پالیس فائرنگ سے کئی بچے اور خواتین ہلاک ہو گئیں ، مظاہرین ٹمی سوارا میں جمع ہونے لگے ، اگلے ہی دن چاوٴ شسکو نے ایران کے دورے پر روانہ ہونا تھا ، جانے سے قبل اس نے اپنی بیوی اور اعلٰی حکام سے میٹنگ کی اور انہیں حکم دیا کہ اس کی واپسی تک بغاوت کو کچل دیا جائے۔

وہ بیس دسمبر کو واپس آیا تو حالات مزید بگڑ چکے تھے ، اس نے آتے ہی ٹی وی پر خطاب کیا کہ رومانیہ کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،یہ ہمسایہ ممالک کی سازش ہے جسے کامیاب نہیں ہو نے دیا جائے گا۔ خطاب ٹی وی پر نشر ہوا تو وہ عوام جنہیں ہنگاموں کی خبر نہیں تھی وہ بھی سڑکوں پر نکل آئے ۔ ٹمی سوارا میں ہزاروں مظاہرین جمع ہو چکے تھے ، چا وٴ شسکونے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دارالحکومت بخارسٹ میں میں جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ، وہ مخالفین کو دکھانا چاہتا تھا کہ رومانیہ کے عوام اب بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اسی ہزار افراد بخارسٹ میں جمع ہو چکے تھے ،باقی عوام کو کہا گیا تھا کہ وہ سب کام کاج چھوڑ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے محبوب لیڈر کی تقریر سنیں۔

21 دسمبر کی شام چاوٴ شسکو کمیونسٹ پارٹی کے کے ہیڈ کواٹر کی بالکونی پر نمودار ہوا، وہ اس سے قبل اس جگہ کئی تقریریں کر چکا تھا، اسے امید تھی کہ ہمیشہ کی طرح عوام اس کے تقریر پر تالیاں بجائیں گے اور اس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائیں گے ۔اس کے ساتھ اس کی بیوی، مسلح گارڈ اور دائیں بائیں پارٹی کے اہم عہدہ دار کھڑے تھے ، اس نے تقریر شروع کی ، پہلے آٹھ منٹ رومانیہ میں سوشلزم کے گیت گائے اور مجمع میں تالیوں کا شور گونجتا رہا ، اس کے بعد وہ مخاطب ہوا :”میں بخارسٹ کے اس عظیم اجتماع کے لیے ، اس کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، اسے ایک سمجھتے۔

۔۔۔وہ ابھی جملہ مکمل نہیں کر پایا تھا کہ مجمع میں سے کسی نے آوازیں کسنی شروع کر دیں ، دوسری آوز، پھر تیسری آواز اور یوں آوازیں ملتی گئیں اور شور بپا ہو گیا ، چند لمحات میں پورے مجمعے میں سیٹیاں اور توہین آمیز کلمات گونج رہے تھے۔ یہ مناظر ٹی وی پر لائیو دکھائے جا رہے تھے ، ہزاروں لاکھوں لوگ گھروں میں بیٹھے آنکھیں پھاڑے یہ مناظر دیکھ رہے تھے ، کسی کو ان مناظر پر یقین نہیں آرہا تھا ، خفیہ پولیس کے چیف نے لائیو نشریات بند کرنے کا حکم دیا مگر ٹی وی انتظامیہ نے حکم ماننے سے انکار کر دیا ، مجمع چیخ چلا رہا تھا ، چاوٴشسکو مائیک پر ہیلو ہیلو ہیلو کرتا رہا مگر کسی نے اس کی آواز نہیں سنی ، اس کے ساتھ کھڑے بیوی نے سپیکر سنبھالا اور زور سے چلائی :”خامو ش ہو جاوٴ خاموش ہو جاوٴ“ مگر کسی نے توجہ نہیں دی ، چاوٴشسکو یہ سب دیکھ کر اپنی بیوی پر چلایا کہ تم خاموش ہو جاو۔

یہ سب مناظر لائیو جا رہے تھے، اس کے بعد چاوٴنے آخری بار مائیک تھاما اور عاجزی سے درخواست کی” کامریڈ برائے مہربانی خاموش ہو جائیے“ مگر کسی نے بھی اس کی آواز سننا گوارا نہ کیا، چاوٴ مایوسی کے عالم میں بالکونی سے اتر ااور اندر چلا گیا، سڑکوں پر ہنگامے شروع ہو چکے تھے اور پورا ملک میدان جنگ بن چکا تھا ، چاوٴ نے فوج کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے لی مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔

مظاہرین کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ آفس میں گھس چکے تھے ، چاوٴ نے عمارت کی چھت پر ہیلی کاپٹر منگوایا اور بیوی سمیت ہیلی کاپٹر پر فرار ہو گیا۔ فو ج اور پولیس اس کی حمایت سے دستبردار ہو چکے تھے ، چناچہ 25دسمبر 1989کو چاوٴ شسکو اور اْس کی بیوی کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا، انہیں قتل عام کا مجرم ڈکلیئر کیا گیا، عدالت نے سزائے موت سنائی اور انہیں اسی وقت گولی مار کر ختم کر دیا گیا، چوبیس سالہ اقتدار صرف ایک ہفتے میں اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، خود کورومانیہ کا محبوب لیڈر سمجھنے والا نشان عبرت بن چکا تھا ۔

میری عمران خان سے درخواست ہے کہ آپ بھی کسی دن اپنی مقبولیت کا جائزہ لینے کے لیے عوام سے براہ راست ملنے کی کوشش کریں ، کسی رات اکیلے سڑک پر نکلیں اور اپنے بارے میں عوامی رائے جاننے کی کوشش کریں ۔اور میری دوسری گزارش ہے کہ آپ ایک دفعہ یوٹیوب پر جا کر چاوٴ شسکو کی آخری تقریرسن لیں اور وہ منظر بھی دیکھ لیں کیونکہ حالات و واقعات اور سیاق و سباق بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں آپ کو بھی اس طرح کی ”عوامی پذیرائی “ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :