نجد جزیرہ نما عرب کا وسطی علاقہ ہے ،یہ مدینہ منورہ سے لے کر یمامہ تک پھیلا ہوا ہے ، یہاں کے نخلستان بہت مشہور ہیں ،صحرا کے بیچ میں کہیں کہیں کجھوروں کے باغات اور میٹھے پانے کے چشمے ہیں ،بعثت نبوی کے وقت مدینہ سے کافی فاصلے پر ایک کنواں تھا جسے معونہ کہا جاتا تھا ، یہ بنو عامر اور بنو سلیم کی ملکیت تھا اور ابلی پہاڑ کے قریب واقع تھا۔
صفرچارھجری میں نجد کاایک سردار ابوبراء عامر بن مالک آپ کے پاس آیا، یہ بنو عامر کے معزز لوگوں میں سے تھامگر قبیلے کی اصل قیادت اس کے بھتیجے عامر بن طفیل کے پاس تھی،یہ آپ سے بڑے احترام سے پیش آیا، آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی ،اس نے قبول کیا نہ ہی انکار بلکہ کہنے لگا آپ اپنے منتخب ساتھیوں کا ایک وفد میرے ساتھ بھیج دیں جو اہل نجد کو اسلام کی دعوت دیں،آپ نے فرمایا:” میں اہل نجد سے مطمئن نہیں ہوں،میرے اصحاب کو وہاں کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے“ اس نے کہا: ”آپ فکر نہ کریں‘ یہ تمام لوگ میری امان میں ہوں گے۔
(جاری ہے)
“ آپ نے سترحفاظ اور دین کے عالم صحابہ کرام کو اس کے ساتھ روانہ کر دیا، یہ لوگ معونہ کے علاقے میں پہنچے تو حضرت حرام بن ملحان آپ کا نامہ مبارک لے کرعامر بن طفیل کے پاس گئے، عامر نے خط پڑھے بغیر ان کو شہید کر دیااور اپنے قبیلے کو حملے کے لیے پکارا ، قبیلہ والوں نے ابوبراء کے امان کی وجہ سے انکار کر دیا ، عامر نے بنو سلیم کو حملے کے لیے بلایا ، صحابہ کرام نہتے تھے مگر بہادری سے لڑے، 68 صحابہ کرام شہید ہو گئے ، حضرت منذر بن عمرو اور عمرو بن امیہ اونٹ چرا رہے تھے ، انہوں نے دیکھا پڑاوٴ والی جگہ پر چڑیوں کے غول منڈلا رہے ہیں، فوراجائے واردات پر پہنچے،عامر نے حضرت منذر کو بھی شہید کر دیا اور عمرو بن امیہ کو اپنی ماں کی نذر کے بدلے آزاد کر دیا۔
جبرائیل نے رسول اللہ کو واقعے کی اطلاع دی، آپ بہت غمگین ہوئے،کئی دن تک طبیعت بے چین رہی اور آپ اس سانحے کے غم سے نہ نکل سکے ۔ صحابہ کرام نے کسی اور واقعے پرآپ کو اتنا غمگین نہیں دیکھا تھاجتنا آپ اس واقعے پر پریشان ہوئے ، آپ نے پورا ایک مہینا قاتلوں کے لیے بد دعا کی اورہر صبح نمازفجر میں قنوت نازلہ پڑھ کرنام لے کر ان کے لیے بد دعا کر تے رہے۔
آپ رسول اللہ کی نبوت کے بعد کی تئیس سالہ زندگی کا مطالعہ کریں ، آپ کو رسول اکرم کی زندگی کا ہر دن اذیت اور تکلیف سے بھرپور نظر آئے گا، یہ تئیس سال آپ نے کانٹوں کی سیج پر گزارے ، مشقت ، حادثات ، غم اور تکالیف ہر لمحے آپ کے سامنے باہیں پھیلائے کھڑے ہوتے تھے مگر آپ کی زبان پر کبھی اف تک نہیں آیا ، بد دعا تو دور کی بات آپ نے کبھی شکایت تک نہیں کی ، تینتالیس سے چھیالیس سال کی عمر میں آپ نے اعلانیہ تبلیغ کا اعلان کیا آپ پر زندگی اجیرن کر دی گئی، عقبہ ابن ابی معیط جیسے بدبخت نے آپ کے گلے میں چادر ڈال کر آپ کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی مگر آپ نے بد دعا نہیں دی، ابوجہل ساری حدیں کر اس کر گیا مگر آپ اس کے اسلام کے لیے دعا ئیں کرتے رہے ، آپ کو تین سال شعب ابی طالب میں قید رکھاگیا مگر شکوہ نہیں کیا ، طائف میں آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے پڑھ کر آج بھی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں مگر آپ نے فرشتے کی فرمائش کے باوجود بد دعا نہیں کی ، ہبار ابن الاسود نے آپ کی لخت جگر سیدہ زینب کو دھکا دے کر اونٹ سے گرادیا جس سے وہ شدید زخمی ہوئیں مگر آپ کی زبان پرحرف شکایت نہیں آیا، وحشی نے آپ کے محبوب چچا اور عظیم سپہ سالار حضرت حمزہ کو شہید کیا مگر آپ نے معاف کر دیا، غزوہ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے مگر آپ کے صبر اور برداشت میں زرہ بھر فرق نہیں آیا،غزوہ خندق میں سارا کفر متحد ہو کر آپ کو زیر کرنے آیا مگر آپ نے بد دعا نہیں کی ، غزوہ حنین میں آپ پر مشکل وقت آیا مگر آپ دعا گو رہے اور سریہ موتہ میں آپ کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ ، جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ جیسے عظیم سپہ سالار شہید ہوئے مگر آپ کا صبر غالب رہا ۔
تئیس سالہ مصیبتوں اور مشقتوں سے بھرپور زندگی کے کسی موقعہ پر آپ کی رحمة اللعالمینی میں کوئی فرق نہیں آیا مگر کیا وجہ ہے کہ آپ بئرمعونہ کے واقعے پر پورا ایک مہینا بددعا کرتے رہے اور بد دعا بھی نام لے کر کی ، کیوں ؟ کیونکہ یہ علم کی موت تھی اور یہ ظلم اور دھوکا تھا اور آپ علم کی موت اور ظلم و دھوکے پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے ، بئر معونہ کے واقعے میں شہید ہونے والے اکثر صحابہ کرام حفاظ، قراء اور عالم تھے، یہ وہ لوگ تھے جو دن میں جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر رات کو صفہ کی درسگاہ میں دین کا علم حاصل کرتے تھے ، انہوں نے اپنی زندگیاں علم دین کی تحصیل میں صرف کی تھیں اور اب یہ دین کے مبلغ بن کر نجد جا رہے تھے ۔
ایک عام انسان کی موت اور عالم کی موت میں بڑا فرق ہوتا ہے اور یہ وہی فرق تھا جس کی وجہ سے آپ بددعا پر مجبور ہو گئے، بڑے بزرگ، مالدار اورعظیم سپہ سالار صحابہ کرام کی وفات پر آپ اتنے دکھی نہیں ہوئے جتنے ان اصحاب کی وفات پر ہوئے۔میں نے جب سے مولانا عادل خان کی شہادت کی خبرسنی ہے میں اس دکھ اور صدمے سے باہر نہیں نکل سکا، آخر ہم نبی اکرم کے اس دکھ کو کیوں نہیں سمجھ رہے، ہم رسول اللہ کی بددعا پر کیوں غور نہیں کر رہے اور ہم ان علماء کو کھو کر مطمئن کیوں بیٹھے ہیں۔
میرا یہ ایمان ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا سرمایہ علماء ہیں ، ان سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور ان کے جانے سے بڑا کوئی نقصان نہیں ،یہ ہیں تو پاکستان ہے ، ان کے دم بدم سے اس ملک کی رونقیں قائم ہیں اور ان کے وجود اور آہ سحر گاہی سے اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔مولانا عادل خان کی شہادت تک شہداء کی ایک لڑی ہے ،ایک طویل سلسلہ ہے ، آخر ہم کیوں نہیں سمجھ رہے کہ علم کی شہادت اور ظلم پر رسول اللہ کی ذات بھی بد دعا پر اتر آئی تھی، ہمیں کیوں اندازہ نہیں ہو رہا کہ یہ شہادتیں معمولی بات نہیں ہے ،یہ قیامت کا پیش خیمہ ہیں ، یہ پوری انسانیت کا اجتماعی مسئلہ ہیں، علماء ہیں تو دین ہے ، دین ہے تو دنیا ہے ، جس دن اس دنیا پر کوئی کلمہ گو نہ رہا وہ اس دنیا کا آخری دن ہو گااور اس کے بعد قیامت ہے ۔
لوگ یہاں جمہوریتیں بحال کرنے اور ملک بچانے میں مگن ہیں مگر میرا دکھ اس کے سوا ہے،علم اور علماء کی شہادتوں پر خاموشی ہے ، ظلم پر پردہ ہے، جس طرز عمل پر رحمة اللعالمین بھی تڑپ اٹھے تھے ہم اسے معمولی واقعہ سمجھ کر زندگی میں مطمئن بیٹھے ہیں، یہ دنیا جن کے دم بدم سے قائم ہے ہم انہیں سمجھ ہی نہیں رہے ،ہمیں ان کی قدر ہی نہیں ۔ ہم وہ بدبخت ہیں جو اپنے ہاتھوں سے انہیں شہید کر رہے ہیں ،ہم میں اور بنو سلیم میں کیا فرق ہے اورکر اچی اور کوفہ میں کیا فرق رہ گیا ہے۔
دو تین صدیوں بعد جب اس امت کی تاریخ لکھی جائے گی تومستقبل کا موٴرخ ہمارے بارے میں وہی الفاظ استعمال کرے گا جو آج ہم اہل کوفہ کے بارے میں کرتے ہیں ،اہل کوفہ آج تک کوفی ہیں اور قیامت تک کوفی ہی رہیں گے ۔رسول اللہ نے فرمایا تھا قیامت کے نزدیک علم اٹھا لیا جائے گا اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ اہل علم اٹھا لیے جائیں گے ، ہم اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ کی پیشنگوئیاں پوری کر رہے ہیں ، ہمارا کیا بنے گا اور ہم کس منہ سے رسول اللہ کا سامنا کریں گے ۔
اور اس پر مستزاد یہ دکھ کہ پڑوس میں واقع کوفہ میں آج تک کوئی عالم شہید نہیں ہوا اور ہم مدینے میں رہ کر علماء کے لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں ، اہل کوفہ بھی سوچتے ہوں گے یہ کیسا ملک اور کیسی قوم ہے جہاں رسول اللہ کے ورثاء محفوظ نہیں ۔کوفہ کے علماء طبعی موت سے جا رہے ہیں اور مدینہ کے علماء کی لاشیں سڑکوں سے اٹھانی پڑتی ہیں ، وہ کوفہ میں رہ کر محفوظ ہیں اور ہم نے مدینہ کو مقتل گاہ بنا دیا ، آخر ہمارا کیا بنے گا۔