سانحہ کربلا اور نواسہ رسول کی ثابت قدمی

جمعہ 28 اگست 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا ایک انوکھا عجیب و غریب اور نہایت دلخراش واقع ہے جس نے انسانی ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اس واقع کو جتنی انسانی تاریخ میں اہمیت حاصل ہوئی کسی اور واقع کو حاصل نہیں ہوئی اور حضرت حسینؓ نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔

باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔
 اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔

(جاری ہے)

سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخِ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کے دریچوں پر اپنی نگاہ ڈالیں تو یہ واضح طور پر ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ عالی مرتبت انسان تھے ، آپﷺ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ سے اتنی محبت فرماتے تھے کہ اپنی پیٹھ پر ان کو سواری کرواتے ، کسی نے یہ حال دیکھ کر اشارہ کیا کہ کیا خوب سواری ہے تو حضورﷺ نے فوری جواب دیا کہ سوار بھی خوب ہے ، نام کے بارے میں حضرت علی المرتضیؓ فرماتے ہیں کہ جب میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو میں نے اس کا حرب نام رکھا حضورﷺ تشریف لائے اور فرمایا اس کا نام حسنؓ ہے ، دوسرے فرزند کی پیدائیش ہوئی تو میں نے نام پھر حرب رکھا لیکن حضورﷺ نے فرمایا اس کا نام حسینؓ ہے ، پھر میرے گھر تیسرا فرزند آیا تو میں نے نام حرب رکھا حضور ﷺ نے فرمایا اس کا نام محسنؓ ہے ، حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ نے دو بکریاں سیدنا حسنؓ کی طرف سے اور دو بکریاں حضرت حسینؓ کی طرف سے ان کی ولادت کے ساتویں دن بطور عقیقہ ذبح کیں ، زمانہ جاہلیت میں جب کسی نومولود کی طرف سے جانور ذبح کیا جاتا تھا تو روئی کے ساتھ جانور کا خون نومولود کے سر پر لگاتے ، لیکن حضرات حسنینؓ کی ولادت باسعادت پر نبی کریم ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ مرکب خوشبو لے کر ان کے سر پر لگائی ، حضرت فاطمہؓ نے ساتویں روز ان کے بال اتروائے اور بال کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی ، سیدنا حسنؓ 3 ھجری میں پیدا ہوئے جبکہ سیدنا حسینؓ 4 ھجری میں ، تاریخوں میں کچھ اختلاف بھی ہے لیکن کوئی بہت بڑا اختلاف نہیں ، حضرت حسنؓ نے 46 سال عمر پائی جبکہ سیدنا حسینؓ نے 57 سال عمر پائی ، لیکن تاریخ کا جبر ملاحظہ فرمائیں کہ مئورخ حضرت سیدنا حسنؓ کی 46 سالہ زندگی کو گول کر گیا جبکہ حضرت سیدنا حسینؓ کی 57 سالہ زندگی کا تذکرہ کرنے کے بجائے صرف کربلا کے 10 دنوں کو ہی بیان کیا جاتا ہے ، حالانکہ جیسے نبی کریم ﷺ سیدنا حسنین شریفینؓ سے محبت فرماتے تھے اسی انداز میں خلیفہ بلا فصل سیدنا صدیق اکبرؓ بھی حضرات حسنینؓ سے محبت فرماتے تھے ، حضرت حسنؓ کو دیکھ کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرمایا کرتے تھے کہ حسنؓ فرزند تو علیؓ کے ہیں لیکن مشابہ نبی ﷺ کے ہیں ، خلیفہ اول کی وفات کے بعد سیدنا فاروق اعظمؓ کا دور خلافت آیا اور باقاعدہ دفتری نظام قائم ہوا تو بدر کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے لئے 5 ہزار درہم سالانہ مقرر کئے گئے ، خلیفہ ثانی نے حضرت علی المرتضیؓ کے مساوی حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ کا سالانہ وظیفہ بھی 5 ہزار درہم مقرر کیا ، حضرت ام کلثومؓ بنت علی المرتضیؓ سے نکاح کی وجہ سے حضرات حسنینؓ کا سیدنا فاروق اعظمؓ کے گھر آنا جانا زیادہ رہتا تھا ، ان کے بعد سیدنا عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں بھی دیگر صحابہ کرامؓ کی طرح حضرات حسنین شریفینؓ بھی اہم امور میں شریک و شامل ہوتے اور اسلامی جہاد اور جنگی مواقعوں پر بھی خلیفہ ثالث کے بہترین معاون بنتے ، حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں جب خراسان فتح ہوا تو عجمی بادشاہ کی دو خوبرو لڑکیاں بھی قید ہو کر آئیں ، حضرت عثمان غنیؓ نے ایک لڑکی سیدنا حسنؓ اور دوسری سیدنا حسینؓ کے نکاح میں دے دی ، جب 18 ذوالحجہ کو حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے تو حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ اگر حضرت عثمانؓ ہمیں حکم دیتے تو ہم باغیوں سے قتال اور جنگ کرتے لیکن انہوں نے حکم دیا کہ سب اپنے ہاتھ کو روک لیں ، حضرت علی المرتضیؓ کے دور خلافت میں بھی حضرات حسنین شریفینؓ نے اہم زمہ داریاں سنبھالیں ، جب ابن ملجم نے حضرت علی المرتضیؓ پر حملہ کر کے انہیں شہید کیا تو قصاص کے طور پر حضرت حسنؓ نے خود ابن ملجم کو قتل کیا ، جس کے کم و بیش 6 ماہ بعد حضرت حسنؓ حضرت امیرمعاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے اور اپنے بھائی سیدنا حسینؓ کے ہمراہ حضرت امیرمعاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت و صلح کر لی ، جس سے حضرت حسنؓ کے حق میں نبی کریم ﷺ کی یہ پیش گوئی بھی درست ثابت ہوئی کہ یہ میرا بیٹا سردار ہے امید ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا ، حضرت امیرمعاویہؓ سے صلح اور بیعت سے اسلام دشمن عناصر خوش نہ تھے انہوں نے حضرت حسنؓ کی ایک بیوی کے ذریعے انہیں زہر دلوایا جس سے 5 ربیع الاول 49 ھجری کو سیدنا حسنؓ دنیا سے رخصت ہوئے ، کچھ لوگ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ زہر خلیفہ وقت حضرت امیرمعاویہؓ کی طرف سے دلوایا گیا لیکن اس الزام کی نفی حضرت سیدنا حسینؓ نے اس انداز میں کی کہ حضرت حسنؓ کا جنازہ خود پڑھانے کے بجائے حضرت امیرمعاویہؓ کے مقرر کردہ امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی سے پڑھوایا ، اس کے بعد جب 51 ھجری میں قسطنطنیہ میں جنگ ہوئی جس میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی وصال ہوا اس جنگ میں حضرت حسینؓ بھی شریک تھے اس کے علاوہ حضرت حسنؓ کی شہادت کے بعد بھی ہر سال سیدنا حسینؓ حضرت امیرمعاویہؓ سے ملنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے ، 22 رجب سنہ 60 ھجری کو حضرت امیرمعاویہ دنیا سے رخصت ہوگئے ، اہل کوفہ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور حضرت حسینؓ کو خطوط لکھے ، جس کے تقریبا 6 ماہ بعد حضرت حسینؓ نے مکہ سے خروج کیا ، پہلے اہل کوفہ نے خطوط لکھ کر حضرت حسینؓ کو بلوایا ، لیکن پھر بے وفائی کی ، جس وقت حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے اس وقت صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیرؓ کوفہ کے گورنر تھے ، لیکن امیر شام نے انہیں معزول کر کے بصرہ کے حاکم عبیداللہ ابن زیاد کو ہی کوفہ کا اضافی چارج سونپ دیا ، عبیداللہ ابن زیاد نے ہوس اقتدار میں وہ شرمناک اور گھٹیا حرکت کی کہ اس کی اس حرکت پر اسلامی اور انسانی تاریخ آج بھی شرمندہ ہے ، پہلے ابن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کیا ، پھر جب ابن زیاد کو پتہ چلا کہ حضرت حسینؓ کا قافلہ آرہا ہے تو اس نے عمرو بن سعد کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کربلا کے مقام پر ہی حضرت حسینؓ کے قافلے کو روک لیا ، بات چیت کے بعد عمرو بن سعد کے رویے میں کچھ نرمی آئی اس نے ابن زیاد سے رابطہ کیا تو ابن زیاد نے صلح کی کسی بھی کوشش کو رد کردیا اور کہا کہ بیعت کے علاوہ کوئی بات قبول نہیں ، حضرت حسینؓ مقام غیرت میں تھے اس لئے بیعت سے انہوں نے انکار کردیا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ جو ہمارا ساتھ چھوڑنا چاہتا ہے وہ چھوڑ دے ہم ثابت قدم رہے گئے،چناچہ سب نے ثابت قدمی کا ثبوت دیا؟ جس کے بعد تاریخ اسلام کا یہ المناک واقعہ پیش آیا جس کو آج واقعہ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

خاندان رسولﷺ کے 17 جوان موقع پر ہی شہید کر دئیے گئے ، حضرت حسینؓ اپنے چھوٹے بیٹے کو گود میں لئے ہوئے تھے کہ ایک تیر اس معصوم بچے کو آکر لگا اس کے خون کو صاف کرتے ہوئے حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ اے اللہ ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما جس نے ہمیں دعوت دی لیکن پھر انہوں نے ہی ہمیں قتل کر ڈالا ، اس کے بعد ظلما حضرت حسینؓ بھی شہید کر دئیے گئے ، یہ واقعہ 10محرم الحرام 61 ھجری کو پیش آیا ، حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ کی زندگی اور شہادت ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، ان دونوں حضرات نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کے لئے کام کیا ، دونوں اسلام کی تاریخ کے روشن ستارے ہیں ،ان دونوں سے بھی خوب پیار کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :