حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی سیرت

جمعہ 22 جنوری 2021

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

صحابی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک مرتبہ حالت ایمان میں ضرور زیارت کی ہو، یہ اٹل حقیقت ہے کہ حضرات انبیاء ؑ کے بعد روئے زمین پر سب سے زیادہ محترم و معظم اور مقدس و برگزیدہ اشخاص حضرات صحابہ کرام ؓ ہیں، اللہ تعالیٰ نے جماعت انبیاء ؑ کے بعد انہیں کی جماعت کو فضیلت وبزرگی عطا کی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جماعت صحابہ ؓ کے بعد قیامت تک بہت سی مبارک ترین جماعتیں اور عظیم الشان ہستیاں پیدا ہوتی رہیں گی، جو اپنے علم وفضل کی وجہ سے درجہ کمال کو پہنچ جائیں گی اور پوری دنیا میں ان کے علم وفضل وتقویٰ وطہارت کا ڈنکا بجے گا ،لوگ دور دور سے ان کی صحبت اور ان سے تربیت حاصل کرنے آئیں گے، مگر اس کے باوجود وہ ادنیٰ درجہ کے صحابی کے مقام تو کیا ان کی جوتیوں کی گرد کے قریب بھی نہیں جا سکیں گے ، اس لئے کہ صحابہ ٔ رسول ؐ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی آنکھوں نے نبی رحمت ؐ کے رخ انور کا دیدار کیا ہے ،ان کے کانوں نے نبوی کریم کے ارشادات سماعت کئے ہیں،ویسے تو ہر ہر صحابی اپنی مخصوص صفت کی وجہ سے اپنا ایک مخصوص امتیاز اور پہچان رکھتے تھے،لیکن اسی گل دستے کے ایک پھول کا نام ” مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام“بھی ہے، ان صاحب کی ایک پہچان اور خصوصیت ایسی ہے ، جس سے کوئی اور متصف نہیں ہے؛ اور وہ ہے ”ان کا بیت اللہ کے اندر پیدا ہونا“۔

(جاری ہے)

جنہوں نے خلفائے راشدین کا مکمل زمانہ پایا اور پھر ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پائی ۔ ( البدایة والنھایة۱۱۲، دار الجیل، بیروت)
حضرت حکیم بن حزام کی پیدائش
ان کی پیدائش کا قصہ بھی بہت عجیب ہے اور یہ ایک ایسی منفرد اور بے نظیر آپ کی خصوصیت ہے جو پوری کائنات میں آپ کے سوا کسی دوسرے کو حاصل نہیں۔امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں راوی حدیث مصعب بن عبد اللہ ہیں وہ فرماتے ہیں:"واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل کا دور تھا، ان کی والدہ حاملہ تھیں، وقتِ ولادت قریب تھا،چند قریشی عورتوں کے ہمراہ بیت اللہ شریف کی زیارت کے لئے تشریف لے گئیں۔

وہاں دردِ زہ شروع ہوگیا، باامر مجبوری انہیں کعبہ کے اندر لے جایا گیا،اللہ کے حکم سے اسی موقعہ پر وہیں حکیم مولود ہوئے،نیچے بچھائے ہوئے کپڑے وغیرہ جو آلودہ ہوئے وہ زم زم کے حوض پردھوئے گئے۔(المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: ۶۰۴۴، ۳/۵۵۰، دارالکتب العلمیہ)
 نام و نسب
آپ کا پورا نام و نسب : "حكیم بْن حزام بْن خویلد بن أسد بن عبد العزى بن قصی، القرشی الأسدی ۔

آپ کے بیٹے کا نام ”خالد“ ہونے کی وجہ سے آپ کی کنیت ”ابو خالد مکی“ تھی۔خاندانِ نبوی کے ساتھ بھی ان کا ایک رشتہ ہے کہ آپ علیہ الصلاة والسلام کی سب سے پہلی زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا ان کی پھوپی تھیں۔
( تاریخ ابن عساکر ، 15 / 100)
 قوت حافظہ
ایک مرتبہ آپ بڑھاپے میں اپنی لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے ، ان نوجوانوں کو شرارت سوجھی ، ایک نے آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : حافظہ چلے جانے کے بعد آپ کو اب کچھ یاد بھی ہے؟ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور اس کا ارادہ سمجھ گئے لہٰذا فرمایا : تم فلاں کے بیٹے ہو ، اس نے کہا ، جی ہاں! آپ نے فرمایا : حافظہ چلے جانے کے بعد بھی مجھے یاد ہے کہ جوانی میں تمہارا باپ مکّے میں لوہا کُوٹا کرتا تھا۔

( تاریخ ابن عساکر ، 15 / 127)
حضور اکرم سے دوستی
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے دانا،عقل مند،فاضل،متقی،رئیس، مستغنی، علم و فضل ، عزت و شرافت ، سخاوت ، تقویٰ و پرہیز گاری اور سرداری جیسے عُمدہ اوصاف سے مالا مال ہونے کے ساتھ نہایت سمجھدار اور بڑی شان والے تھے۔ دورِ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں قریش کے مُعزّز لوگوں میں آپ کا شمار ہوا۔

آپ نے بچپن سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے شب و روز کو اپنی نظروں سے دیکھا، اس لیے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے ہی یہ آپ کے مخلص دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور دعویٰ نبوت کے بعد بھی انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی سابقہ دوستی اور محبت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔( استیعاب ، 1 / 417 ، سیر اعلام النبلاء ، 4 / 238)
بنو ہاشم کی مدد
بعثت کے دعویٰ کے بعد جب قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے خاندان (بنو ہاشم اور بنو مطلب) سے بائیکاٹ کیا اور ان کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا اور ان سے ہر طرح کے لین دین کی مقاطعت کر لی ؛تو اس وقت بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ملکِ شام کی طرف سے آنے والے تجارتی قافلوں سے خاموشی کے ساتھ سامان خرید کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی پھوپی حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کے اکرام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پورے قبیلے والوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔


( سیرت حلبیہ ، 1 / 475)
قبول اسلام
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا قریبی تعلق اور دوستی ہونے کے باوجود انہوں نے اسلام بہت تاخیر سے قبول کیا، حتی کہ فتحِ مکہ کے موقعہ پر اسلام میں داخل ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے نکلے تو یہ اور ابو سفیان سردارانِ مکہ کی طرف سے بطور ِ جاسوس مسلمانوں کے لشکر کی طرف نکلے تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سفیان کے لیے امان حاصل کر لی، اسی سبب سے حضرت ابو سفیان مسلمان بھی ہوگئے۔

پھر دوسرے دن صبح کے وقت حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو ئے ۔اس وقت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تالیف ِقلب میں یہ اعلان کروایا کہ جو شخص بھی ”حکیم بن حزام “کے گھر داخل ہو گیا، اسے بھی امان ہے۔آپ خود اورآپ کے بیٹے عبداللہ ،خالد،یحییٰ اور ہشام صحابی ہیں۔

آپ مولفۃ القلوب میں سے ہیں۔اسلام قبول کیا تو اس کا حق بھی خوب اداکیا۔( استیعاب ، 1 / 417)
غزوہ حنین میں شرکت
اس کے بعد انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو کر غزوہ حنین میں حصہ لیا۔ جب کہ اسلام لانے سے قبل یہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف غزوہ بدر میں بھی شریک ہوئے تھے، اس غزوہ میں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہونے سے بمشکل بچ پائے تھے، مسلمان ہو جانے کے بعد اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب بھی قسم کھاتے تو اس طرح کہتے: ”اس ذات کی قسم ! جس نے مجھے بدر کے دن قتل ہونے سے بچا لیا تھا“۔


( سیر اعلام النبلاء ، 4 / 238)
جنت میں جانے کا شوق
ایک مرتبہ آپ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کیا : کیا چیز (مجھے) جنّت میں داخل کرے گی؟ارشاد فرمایا : تم کسی سے کوئی چیز مت مانگنا ، پھر حضرت حَکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ (نے اس بات کو اپنی گرہ میں ایسا باندھا کہ ) اپنے خادم کو یہ بھی نہ کہتے کہ مجھے پانی سے سیراب کرو اور نہ اس سے وضو کے لئے کچھ (پانی ، برتن وغیرہ ) لیتے۔

( الوافی بالوفیات ، 13 / 81)
 استغناء نفس
اسی غزوہ حنین کا قصہ ہے کہ جب مال غنیمت تقسیم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تالیفِ قلب کے لیے ایک سو اونٹ عطا فرمائے، انہوں نے مزید کا مطالبہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور عطا فرما دیے، انہوں نے مزید اور کا بھی مطالبہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ مال بظاہر شیریں چیز ہے؛ لیکن جس نے اسے دل کی بے نیازی کے ساتھ لیا، اس شخص کو اس مال میں برکت دی جائے گی اور جس نے اسے نفسانی خواہش کے ساتھ لیا تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی اور وہ شخص اس طرح ہو گا کہ اسے استعمال کرے گا؛ لیکن وہ سیر نہیں ہوگا“۔

اس پر انہوں نے قسم کھا لی کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں آپ کے بعد کسی کا بھی احسان قبول نہیں کروں گا؛ چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کبھی کسی کا احسان قبول نہیں کیا، آپ علیہ الصلاة والسلام کے دور کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور گذرے ، وہ حضرات فتوحات کے مواقع پر آپ کو کوئی پیش کش کرتے تو آپ انکار فرما دیا کرتے تھے، حضر ت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ کو بلایا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطیہ لینے سے انکار کردیا ۔

تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے۔
"لوگو!گواہ رہنا کہ میں مال فے میں سے حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حصہ انہیں دیتا ہوں وہ از خود لینے سے انکاری ہیں۔(یعنی حصے کی ادائیگی میں ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں یہ خود نہیں لینا چاہتے)چنانچہ حضرت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کچھ نہ مانگا۔


(صحیح البخاری 335/3 ۔حدیث نمبر 1472)
لیکن اس کے باوجود آپ بڑے مال دار تھے، جس دن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کی وصیت کی تو ایک لاکھ درہم کا قرضہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا نکلا۔
(سیر اعلام النبلاء ، 4 / 234)
آپ کی نیکی اور سخاوت
”دار الندوہ“ (قریش کے لیے یہ گھر قائم مقام عدالت کے تھا)جہاں سردارانِ قریش کی مجالس ومحافل جما کرتی تھیں، اس جگہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس مکان میں کوئی ایسا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا، جس کی عمر چالیس سال سے کم ہو، سوائے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے کہ ان کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی، وہ اس گھر میں کفار ومشرکین کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے،) انھیں کی ملکیت تھا، جو آپ علیہ الصلاة والسلام اور خلفائے راشدین کے زمانے میں آپ کے پاس ہی رہا، بعد ازاں! انہوں نے وہ ”دارالندوہ “ایک لاکھ دراہم (اور ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار دراہم)کے بدلے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کر دیا، اس موقعے پر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا کہ آپ نے تو قریش کی عزت (والی جگہ) فروخت کر دی، انہوں نے جواب میں فرمایا: بھتیجے! تقوی کے سوا تمام کے تمام کام ختم ہو گئے اور ہو جائیں گے، صرف تقوی ہی باقی رہے گا، اے بھتیجے! میں نے یہ مکان شراب کے ایک مشکیزے کے بدلے خریدا تھا، اب میں اس کے بدلے جنت میں گھر خریدوں گا، اے بھتیجے! تم گواہ رہو، میں نے اس گھر کے بدل میں ملنے والی رقم کو اللہ کی راہ میں دے دیا۔


( سیر اعلام النبلاء ، 4 / 237)
حضرت زبیر بن بکار کا بیان ہے کہ ایک سال حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے حج کیا، ان کے ساتھ سو اونٹ اور سو بکریاں اور سو خدمت گزار تھے، جن کی گردنوں میں چاندی کے ہار تھے، جن پر لکھا ہوا تھاکہ یہ حکیم بن حزام کی طرف سے اللہ کی راہ میں آزاد کردہ غلام ہیں، پس آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور تمام جانور انھیں ہدیہ دے دیے۔


( الوافی بالوفیات ، 13 / 81 ، مراٰۃ المناجیح ، 4 / 247ملخصاً)
زید بن حارثہ کے خریدار
زمانۂ جاہلیت میں طائف کے قرب وجوار میں ایک میلہ لگتا تھا جو ’’سوقِ عکاظ‘‘ یعنی عکاظ کی منڈی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک مرتبہ اس میلے میں بہت سارے غلام فروخت کے لیے پیش کیے گئے۔ ان غلاموں میں ایک نہایت خوبصورت اور ذہین نوجوان زید بن حارثہ بھی تھے۔

انہیں حکیم بن حزام نامی شخص نے خرید لیا اور مکہ پہنچ کر اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا۔ بعد ازاں سیدہ خدیجہؓ نے اس نوجوان کو اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں پیش کیا اور آپؐ نے زید کو آزاد کر دیا۔
( تھذیب الکمال ، 3 / 78‌)
آپ کی عمراور وفات
آپ رضی اللہ عنہ نے 120سال کی طویل عمر پائی یہاں تک کہ بینائی بھی چلی گئی تھی اور عجیب بات یہ کہ آپ کی زندگی کے ساٹھ سال کفر کی حالت میں گذرے اور ساٹھ سال اسلام کی حالت میں۔

انتقال سے پہلے مسلسل یہ الفاظ کہتے رہے : لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اُحِبُّکَ وَ اَخْشَاکَ یعنی (اے اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، میں تجھ سے مَحبت کرتا ہوں اور تجھ سے خوف رکھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا وصالِ باکمال سن 54 یا 58 ہجری کومدینے میں ہوا۔ کُتبِ احادیث میں آپ رضی اللہ عنہ سے تقریباً 40 حدیثیں روایت ہیں جن میں سے4 اَحادیث بخاری اور مسلم میں ہیں۔

(تاریخ ابن عساکر ، 15 / 128،سیر اعلام النبلاء ، 4 / 238)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی عظمت و فضیلت ایمان کو جلا بخشتی ہے اور ان کی اتباع کامیابی دلاتی ہے ،یہ حضور اکرم کی مثالی ہستیاں تھیں ،چودہ سوسال کے بعد بھی ان کی مثال پیش کرنے سے تاریخ انسانی عاجز اورعقل انسانی حیران ہے، چنانچہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی تاکید کی گئی ہے اور اسی میں کامیابی کی ضمانت ہے ؎
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکر رب کے دیوانے گئے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :