عید، آزادی مبارک کے اشتہارات پر فضول خرچی

جمعہ 14 اگست 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

عید سے چند دن پہلے آپ کسی مین روڈ پر جارہے ہوں اور ٹریفک سے بچتے بچاتے اپنی ذمہ داری پرمین چوک پر اپنے دائیں بائیں نظریں دوڑا کردیکھیں تو آپ کی نظریں20 فٹ اور 40 فٹ کے بڑے بڑے پینا فلیکس پرآپکے شہر کی عظیم شخصیات کی قدآور تصاویر پر پڑیں گی۔اور ان تصاویر کے نیچے ان عظیم شخصیات کے ہمنواؤوں، جگری ساتھیوں، وفادار حامیوں کی تصاویر بھی نمایاں طور پر دیکھائی دیں گی۔

اور ساتھ ہی ساتھ عوام الناس کودل کی گہرائیوں سے، عید کی مبارکباد دی جارہی ہوتی ہے۔اور دل کو موہ لینے والے پیارے پیار دیگرمبارکبادی کے کلمات لکھے ہوئے ہوتے ہیں، اک اور بات جسکا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے کہ ان تصاویر کے نیچے ان عظیم شخصیات کے نام ، انکے عہدوں کا ذکر، انکی سیاسی پارٹی سے وابستگی، یہاں تک کے اگر کوئی بندہ رکن اسمبلی نہیں بھی ہے تو انکے ساتھ ”ٹکٹ ہولڈر“ یا سابقہ ایم این اے، سابقہ ایم پی اے ضرور لکھا ہوا دیکھنے کو ملے گا۔

(جاری ہے)

اور سب سے بڑھ کر انکے عظیم شخصیات جن کی قدر آور تصاویر ان فلیکس پرنظر آرہی ہوتی ہیں ان شخصیات کے عظیم لیڈران اور پارٹی سربراہوں کی تصاویر بھی نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اشتہار بازی کی اس دوڑ میں کوئی سیاسی جماعت کیا حکومتی جماعت تو کیا اپوزیشن جماعت ہارنا نہیں چاہتی، ہر سیاسی پارٹی ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک اشتہار بنوا رہی ہوتی ہے اور شہر کی بڑی بڑی بلڈنگوں، چوک ، چوراہوں پر آویزاں کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی نظر آتی ہے۔


پہلے پہل تو اس طرح کے اشتہارات صرف سیاسی پارٹیوں کے لوگ ہی بنواتے اور چوکوں کی زینت بنواتے تھے، پھر کچھ عرصہ بعد سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ تاجر برادری کے افراد، سماجی تنظیموں کے افراد بھی اس کارخیر میں شامل ہوگئے۔ بندہ ناچیز نے اس سال دیکھا کہ شہر کے سب سے بڑے چوک پر صحافی برادری کی طرف سے بھی عید مبارک کا قدآواراشتہار ا ک بہت ہی بڑے فلیکس پر لگوایا گیا ہے۔


یہ اشتہار بازی کی دوڑ اب شہر کی بڑی بڑی بلڈنگوں ، چوک چوراہوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس عمل نے محلہ کے چوک اور گلی کوچوں میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ چونکہ ابھی مستقبل قریب میں بلدیاتی الیکشن بھی ہونے والے ہیں تو متوقع امیدواران بھی اشتہاربازی کے میدان میں کھل کر سامنے آرہے ہیں اور تمام محلہ اور اہل علاقہ کو اپنی خوبصورت تصویر کے ساتھ ساتھ عید مبارک کہ رہے ہیں۔

اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اہل محلہ اور اہل علاقہ کے خوشی و غمی میں برابر کے شریک ہیں۔
عید کی طرح ، یوم پاکستان، یوم آزادی پاکستان، یوم دفاع کے دنوں پر بھی بہت ہی بڑے بڑے اشتہارات مین روڈز، چوکوں کی زینت بنتے ہیں۔ اب چونکہ گزشتہ کچھ سالوں سے عید اور یوم آزادی پاکستان کے دن بھی ساتھ ساتھ آرہے ہیں تو ہر سال کی مرتبہ اس عید پر بھی عید مبارک اور یوم آزادی مبارک کے مشترکہ ا شتہارات دیکھنے کو ملے ہیں۔


سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ:
کیا ان اشتہارات کوبنوانا، چھپوانا، اور شہر کے بڑے بڑے چوکوں پر آویزاں کرنا بہت ہی ضروری ہے؟
کیا ان اشتہارات پربھاری رقم کوخرچ کرنا بہت ضروری ہے؟
کیا ان اشتہارات کے بغیر عید ، یوم دفاع اور یوم آزادی کے دنوں کو منایا نہیں جا سکتا؟
کیایہ اشتہارات کسی فلاحی منصوبوں کا حصہ ہیں یا پھر ذاتی تشہیر؟
کیا یہ اخراجات فضول خرچی نہیں ہیں؟
کیا ان اشتہارات سے غریبوں کے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے؟
کیا اس ذاتی تشہیر کا ہمیں ثواب بھی ملے گا؟
کیا یہ عمل ہمارے لئے صدقہ جاریہ کا باعث بن سکتا ہے؟
پرخلوص نیت اور بغیر کسی سیاسی، سماجی ، تنظیمی وابستگی کی سوچ کے اگر درج بالا سوالات کے جواب میں ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ عمل صرف اور صرف ذاتی تشہیر ہے، اس عمل کو فضول خرچی ہی تصور کیا جاسکتا ہے، اشتہار بازی کی اس دوڑ میں ہم اک دوجے کو نیچا دیکھانے کی تگ ودو میں لاکھوں نہیں بلکہ کڑوروں روپے خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔


کیااس ذاتی تشہیر کی بجائے ہم اس رقم سے اپنے محلہ، علاقہ، شہر کے کتنے ہی یتیم، بے آسرا، بے گھر افراد کی پرخلوص مدد نہیں کرسکتے؟
غریب غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی نہیں کرواسکتے؟
بے روزگاروں کو روزگار کے لئے قرضہ حسنہ نہیں دے سکتے؟
مدرسہ، مسجد کی خدمت نہیں کرسکتے؟
فلاحی ہسپتال، ڈسپینسری نہیں بنواسکتے؟
بہت سے ایدھی جیسے فلاحی اداروں کو چندہ نہیں دے سکتے؟
نیا سکول اور پرانے سکولوں میں نئے کمرے اور مطلوبہ ضروریات مہیا نہیں کر سکتے؟
فلاحی بہبود کے منصوبے نہیں بناسکتے؟
صاف اور فلٹریشن پانی کے پلانٹ نہیں لگا سکتے؟
اپنے محلے کی ٹوٹی ہوئی سڑک نہیں بنوا سکتے؟
اپنے محلے کی گلی کی نالی کی مرمت نہیں کرواسکتے؟
اپنے محلے کی سٹریٹ لائٹس کا انتظام نہیں کرواسکتے؟
انصاف کے حصول کے لئے غریب لوگوں کی طرف سے وکلاء کی فیس ادا نہیں کرسکتے؟
جیلوں میں پڑے ہوئے ہزاوروں ایسے قیدی جو جرمانے کی معمولی رقم ادا نہ کرنے وجہ سے رہا نہیں ہو پارہے تو کیا انکی طرف سے معمولی جرمانہ ادا کرکے انکی رہائی کے بندوبست نہیں کرسکتے؟
اشتہاروں کی بجائے مختلف قسم کے پودے لگا کر ماحول کو آلودگی سے پاک نہیں کرسکتے؟
اپنے علاقہ، محلہ کے قبرستان کے لئے جگہ لے کر نہیں دے سکتے؟
اپنے علاقہ میں خواتین کے لئے سلائی کڑھائی و دیگر دستکاری کا کارخانہ بنواکر بے روزگاری کو ختم نہیں کروا سکتے؟
اسکے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام ہیں جو بظاہر بہت معمولی نوعیت کے لگتے ہیں مگر کسی غریب بے آسرا کے لئے وہ زندگی موت کے معاملے ہوتے ہیں اگر انکی مدد کردی جائے تو دین و دنیا کی بھلائی کا سامان اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ہمیشہ کے لئے صدقہ جاریہ کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ عوام الناس کو عید اور دیگر تہواروں پر ان قدآوارمبارکبادی کے اشتہارات کا کوئی اثر نہیں پڑتا، عوام یہ سمجھتی ہے کہ سب ذاتی نمائش ہے کیونکہ ان اشتہارات کا عوام کی ذاتی، معاشرتی، معاشی زندگیوں پر رائی کے دانے کے برابر بھی اثر نہیں پڑتا۔
قران و حدیث کی روشنی میں ”فضول خرچی“ کے بارے میں سخت حکم ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے، فضول خرچی ، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اسکی پرشدید مذمت کرتا ہے۔

فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالی ناپسند کرتے ہیں۔
سورہ الاعراف (آیت نمبر 31) میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :
”اے اولاد آدم، تم ہر نماز کے وقت اپنے آپکو مزین کیا کرو، اور کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اُڑاؤ کہ اللہ بے جا اُڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔


سورہ بنی اسرائیل (آیت نمبر 26, 27) میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو انکا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ۔ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی ناشکرا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو ھدایت نصیب فرمائے ، آمین ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :