معذرت کے ساتھ

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام انسانوں کےلئے بہترین نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے زندگی میں کبھی دروغ بیانی سے کام نہ لیا اور نہ کبھی کسی سے منافقت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کا انوکھا کردار ہیں،جنھوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں کردار ادا کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی زندگی کا آغاز چرواہے کے طور پر کیا،پھر تاجر بن گئے اور جب نبوت ملی تو محسن انسانیت ہو گئے اور انسان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔

پھر فتح مکہ کے موقع پر قصواء  اونٹنی پر سوار،جب مکہ میں داخل ہوئے تو بادشاہ تھے۔لیکن عاجزی اور انکساری ایسی کہ قافلوں کی سرداری غلاموں کو عطاء کی ہوئی تھی۔غزوات کے فاتح تھے۔

(جاری ہے)

عفودرگزر کا پیکر ہوئے۔اخلاق اور کردار کا نمونہ ٹھہرے۔ہنس مکھ تھے۔مسکراہٹ چہرہ پر سجائے رکھتے،لیکن کبھی قہقہہ نہ لگاتے۔تبسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم وصف تھا۔

عہد شباب میں ویرانوں میں نکل جاتے اور غار حرا میں سکونت اخیتار کر لیتے۔جہاں پر ستو سے گزر بسر کرتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انقلاب کا آغاز رفتہ رفتہ معمولی کاموں سے کیا۔سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کردار سے مکہ کے سنگ دل مکینوں کے دلوں کو  تراشا اور ان کو  اپنا گرویدہ کر لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین اور صادق کے لقب سے پکارے جانے لگے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی قافلوں کے ساتھ طویل مسافتیں طے کرنے لگے اور چند عرصہ میں مکہ کے کامیاب تاجر بن گئے۔اگر ہم ممتاز مفتی صاحب کی اصلاح کو مستعار لے لیں تو بقول مفتی صاحب گمان غالب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے واحد مکین تھے،جنھوں نے اپنی سچائی اور دیانت داری کے زور پر عزت کروائی۔ورنہ تو مکہ کے قبائلی نظام میں عزت کا معیار سرداری اور طاقت تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی دھوم دور دور تک پھیل گئی۔لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فین ہوگئے۔اور اپنی ذات سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور امانت کے قائل بن گئے۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اعلان نبوت فرمایا،تو بہت سے لوگ آپ کے مخالف ہوگئے۔کیوں،کیونکہ انھیں  مسئلہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں تھا۔

بلکہ اعلان نبوت سے تھا،جس سے ان کی سرداری کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ورنہ میرا یقین ہے،سارے دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم کرچکے تھے۔اس کا اقرار ان کےلئے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔نبوت کا اقرار ان کی اجارہ داری اور طاقت کا خاتمہ تھا۔اگر وہ بتوں کو پاش پاش کر دیتے،تو نہ صرف ان کی سرداری ختم ہوجاتی بلکہ مکے کی اقتصادی اہمیت بھی ٹھپ ہوجاتی۔

تو یوں دنیاوی جاہ و جلال کی خاطر،وہ بدبخت روشنی کو ٹھکرا بیٹھے۔اور ہمیشہ ہمیشہ کےلئے اندھیروں کے اسیر ہو گئے،اور آج بھی دنیا انھیں لعن تعن کرتی ہے۔اور کوئی ان کے ناموں پر نام رکھنا پسند نہیں کرتا،کوئی ابو لہب ٹھہرا تو کوئی ابوجہل، یا پھر عبداللہ بن ابی ایسے منافقوں کے سردار ٹھہرے۔ان کے اسلام نہ لانے سے اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑا،لیکن یہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے اپنے لیے آگ کے گولے تیار کر گئے اور مردود ہوگئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تیئس سال کی سٹرگل میں بےشمار رکاوٹیں تھیں۔اپنے بھی مخالف ٹھہرے،غیروں نے بھی ستایا۔گھپ اندھیروں میں ہجرت بھی کرنا پڑی۔طائف کے بدنصیبوں سے پتھر بھی برداشت کرنا پڑے۔لیکن کسی کےلئے حرف شکایت لائے اور نہ ہی کسی کو بددعا دی۔پھر اللہ تعالی نے آسانیاں فرما دیں۔ایسے باوفا ساتھیوں کا ساتھ نصیب ہوا،جنھوں نے جان جوکھوں پر ڈال کر ہر جگہ اور ہر پل قربانیاں دیں۔

سورہ الم نشرح کا نزول ہوا تو جیسے روئے زمین پر روشن سویر چار سو  پھیل گئی۔اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ کھول دیا۔جو بوجھ آپ کے کندھوں پر تھا،اسے اتار دیا۔اور آپ کے ذکر کو بلند کردیا۔پھر حق حق ہوگیا اور باطل باطل ٹھہرا۔اور اللہ نے دین اسلام کو انسانوں کےلئے پسند فرمایا لیا۔دوستو،میں معذرت خواہ ہوں۔میری تحریر کی شاید عالمانہ حثیت نہ ہو۔

کیونکہ میں ایک گناہ گار انسان ہوں۔میں عالم نہیں ہوں۔میری یہ تحریر کوئی نصیحت بھی نہیں ہے۔لیکن ایک مشورہ ہے۔ہمارا معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔انسانی رویوں میں منفی پہلو پروان چڑھتے جا رہے ہیں۔ہم اخلاقی طور پر کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔اور اب تو ہمارا خاندانی نظام بھی مدوجزر کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔اسی اثناء میں میرا مشورہ ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کو جیتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔آپ سے بڑھ کر کوئی امانت دار نہیں تھا۔اور آپ ایک کامیاب شوہر اور ایک بہترین باپ بھی تھے۔آپ ایک عدل پسند تھے۔کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہ دیا۔اور نہ ہی زندگی میں کبھی کسی کا حق مارا۔بڑوں سے عزت و احترام سے پیش آتے اور چھوٹوں پر ہمیشہ شفقت فرماتے۔

عورت کی عزت کرتے۔بوڑھی عورتوں کی دعائیں لیتے۔اور حاجت مند کی ضرورت پوری فرماتے۔ہمیشہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے،دوسروں سے ملتے۔گالی کو گناہ سمجھتے۔حیا کو زیور کا درجہ دیتے،اور سادگی کو حسن کا معیار جانچتے۔عاجزی اور انکساری کا مجسمہ تھے۔ہر کسی سے اس کی حثیت کے مطابق گفتگو فرماتے۔کبھی کسی پر عالمانہ رعب نہ ڈالتے۔بامقصد اور اختصار سے مزین بات چیت کرتے۔

کبھی کبھی ماحول میں رونق بھرنے کےلئے مزاح بھی کرتے۔جس سے صحابہ رضوان  اللہ اجمعین کے چہروں پر تبسم کے آثار نمایاں ہوجاتے اور ماحول میں حسن اور چاشنی پیدا ہوجاتی۔ہمیشہ فرماتے،تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا برتاؤ کرتا ہے۔اور غلاموں سے حسن سلوک کی تاکید فرماتے۔صبح اور شام کی چہل قدمی بھی کرلیتے اور فرماتے تمہارے جسموں کا بھی تم پر حق ہے۔

ذہنی مریضوں کو بھی سنتے اور ان کی لغویات کو صرف اس لیے سنتے کہ ان کی دل آزاری نہ ہو۔کبھی کسی کی دل آزاری نہ کرتے۔ہمیشہ صلہ رحمی  فرماتے۔ بچوں کو پھول کی کلیوں سے تشبیہ دیتے۔سربزم گفتگو میں نرم لہجہ رکھتے۔لیکن اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے۔ہمیشہ بےلچک رویہ اختیار کرتے۔عدل و انصاف کے قائل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے پہلے قانون ساز اور حاکم ہیں،جنھوں نے عورت کو مردانہ جبر و ظلم سے نجات دلائی۔

اور عورت کو مرد کے برابر حقوق دلائے۔ دوستو،لکھتے رہیں گے شان ان کی تو یہ طویل سے طویل  تر ہوتی جائے گی۔نہ ان کی سیرت کے خصائل ختم ہونے ہیں۔اور ان نہ کردار کے چشموں سے پانی کم ہونا ہے۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار تو اس دریا کی مانند ہے۔جو چھوٹے سے چشمہ سے پھوٹتا ہے۔اور سمندر میں جا گرتا ہے ۔"کتھے مہر علی کتھے تری ثناء"۔ بس اتنا عرض کرتا ہوں۔

کسی کا گلہ کرنے سے بہتر ہے۔ہم اپنی اپنی کردار سازی کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ہم اپنے عظیم محسن صلی اللہ علیہ وسلم کے بھولے ہوئے اصولوں کو یاد کر کرکے ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اصول محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیتے ہیں۔ان کی پیروی کرتے ہیں۔اسی میں خیر ہے۔اسی میں نجات ہے۔اور اسی میں عزت وتکریم ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔عزت تو صرف ایمان والوں کےلئے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :