
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- محمد ثقلین کانجن
- سویک جھیل کے پانیوں پر اترتے پرندے اور کوہ نوردی کرتے قافلے
سویک جھیل کے پانیوں پر اترتے پرندے اور کوہ نوردی کرتے قافلے
بدھ 14 جولائی 2021

محمد ثقلین کانجن
کھنڈوعہ گاؤں سے پارکنگ ایریا تک اپنی گاڑی پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ اس سے آگے مقامی لوگوں کی جیپ سروس یا پھر ہائیکنگ کے ذریعے جھیل تک پہنچا جاتا ہے۔ سویک جھیل کی جانب جانے والا راستہ کافی پرخطر اور دشوار ہے۔ پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے وادیوں کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس جھیل کا سفر ایڈونچر سے بھرپور ہے۔ اس جھیل کا پانی نیلا اور اس قدر شفاف ہے کہ سطح آب سے پانی میں تیرتی مچھلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
بہت سے لوگ اس جھیل سے نا آشنا ہیں۔ لیکن جو یہاں ایک بار پہنچ جاتا ہے۔ وہ پھر سویک جھیل کے سحر سے آسانی سے نکل نہیں پاتا۔ ہم بھی سویک جھیل کے حسن سے ناآشنا تھے۔
ہمارے قافلے میں موجود ایک دوست اویس نے اس جھیل کے پانیوں کا ذائقہ چکھ رکھا تھا۔ ہمارا قافلہ جو یونیورسٹی سے چھیٹوں گزرانے کوہ نوردی پر نکلا تھا۔ ہمارا قافلے نے کلرکہار کے مضافاتی تاریخی اور قدرتی مقامات دیکھنے کے بعد سویک جھیل کی طرف رخت سفر باندھا۔ اور ہم سویک جھیل کی طرف نکل پڑے۔ جب ہماری گاڑی لنک روڈ سے ہوتی ہوئی کھنڈوعہ گاؤں کے تنگ ترین راستے کی جانب گامزن ہوئی، تو ہمیں دور تک گاڑیوں کا ہجوم نظر آیا۔ جو تنگ راستے ہونے کی وجہ راستے میں پھنسی ہوئی تھیں۔ سیاحوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کی روانی کو بحال کیا۔ یہاں پر قافلے میں موجود دوست اویس سے خفا ہوئے، جبکہ ہمارے دوست حمزہ جو گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ وہ کافی نالاں بھی دیکھائی دیے۔ لیکن جوں ہی ہم پارکنگ ایریے میں داخل ہوئے، تو پارکنگ کےلئے وسیع رقبہ تھا۔ جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔ اور یہ مقامی افراد کی تحویل میں تھا۔ اس سے آگے ہم نے جیپ سروس استعمال کی، اور جھیل کی طرف روانہ ہو گئے۔
جھیل کی طرف جانا والا راستہ کافی مشکل، پرخطر اور کٹھن تھا۔ لیکن ہم دوست اس ایڈونچر سے محظوظ ہوئے، اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے سفر کی طرف رواں دواں رہے۔ وادیوں میں چلتی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا اور درختوں نے اپنے بھینی بھینی مہک سے ہمیں خوش آمدید کہا۔
جیب نے کافی سفر طے کرنے کے بعد ہمیں پہاڑ کے دامن میں اتار دیا۔ جس سے نیچے ہمیں ہائیکنگ کرتے ہوئے جانا پڑا۔ اور ہائیکنگ کا تجربہ بھی بہت خوشگوار رہا۔ جب ہم جھیل پر پہنچے تو ساری تھکاوٹ، راستے کی داشوری اور پہاڑوں کا پرخطر سفر بھول کر اس کے حسن میں کھو گئے۔ بلند و بالا سرسبز پہاڑوں سے گرتی آبشار اور جھیل میں جمع ہوتا پانی ایک منفرد منظر پیش کر رہے تھے۔
جس سے بہت سے سیاح محظوظ ہورہے تھے۔ کچھ لوگ اس صحت افزاء مقام پر باربی کیو کے ذائقے دار کھانوں کے مزے لے رہے تھے، تو کچھ گرما گرم چائے کے گھونٹ اپنے حلق میں اتارتے ہوئے، جھیل کے سرد پانیوں کے کنارے اپنی زندگی کے لمحوں کو خوشی اور اطمینان کے ساتھ بسر کر رہے تھے۔
ہم نے جاتے ہی لائف جیکٹس پہنی اور یخ ٹھنڈے پانیوں میں اتر گئے۔ ہم کافی دیر تیراکی کے حسین تجربے کو انجوائے کرتے رہے۔ ہم آبشار سے گرتے پانیوں کے نیچے ان پانیوں کا نظارہ کرتے رہے۔ جہاں پر پتھروں کے ساتھ چمٹے کچھ کیکڑے بھی ہمیں دیکھائی دیے۔ اور مچھلیاں بھی ہمارے ساتھ ساتھ تیرتی رہیں۔ وہ ہمیں کچھ نہ کہتی تھیں۔ بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہوئے ، اپنی زندگی کے دائروں کے گرد گھوم گھوم کر اور اپنے پوپلے منھ کھول کھول کر قدرت کی تخلیق سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
ہم ان مچھلیوں کو دیکھ دیکھ کر سویک جھیل کے پانیوں کی ٹھنڈک اپنے بدنوں میں اتارتے رہے۔
صابر بھائی اس گہری جھیل میں تیرتے ہوئے، میرے ساتھ ساتھ رہے، اور اپنے مخصوص انداز میں لطف اندوز کرتے رہے۔ جبکہ جھیل کنارے کھڑے ہمارے پیارے دوست ثوبان ہماری تصویریں کھینچتے رہے۔ جب ہمیں طویل سوئمنگ نے تھکا دیا، تو ہم کنارے پر آ گئے۔ اور اپنے ساتھ لائے چونسا آم جو جھیل کے پانی سے یخ ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ ان میٹھے آموں کے مزے دار ذائقے سے خوب لطف اٹھاتے رہے ۔ آموں سے تو خاص رغبت ہے۔ اور غالب کی طرح آم بہت ہوں اور مٹھے ہوں تو کیا ہی بات ہے۔ اور آم ہوں اور پھر ٹھنڈے پانیوں کی جھیل ہو تو مزہ اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔
آموں کے میٹھے ذائقے اپنے اندر اتارنے کے بعد دوبارہ ہم نے جھیل کے پانیوں میں چھلانگ لگا دی۔ اور شام ڈھلنے تک سویک کے پانیوں، سیاحوں کی رونقوں اور مچھلیوں کے پانیوں میں تیرنے کے حیرت انگیز تجربے سے پر مسرت ہوتے رہے ۔
سورج ڈھل رہا تھا۔ ہم پانیوں سے نکل کر باہر آ گئے۔ اور کوہ نوردی شروع کر دی۔ جب ہم پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے، تو ہمیں رنگ برنگے پرندے جھیل سے پرے ندی پر اترتے ہوئے دیکھائی دیے۔ جو سبھی خوش رنگ تھے۔ پرندوں کی آواز میں ایک موسیقی تھی، ایک لے تھی۔ زندگی کا احساس تھا۔ جس نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ کوہ نوردی کرتے دوسرے کئی قافلے بھی پرندوں اور سبزہ زاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم پہاڑ کے دامن میں جیپوں کے پاس پہنچے، اور واپسی کےلئے محو سفر ہوئے۔ سورج ڈھلنے میں تھوڑا وقت باقی تھا۔ وادیوں میں چرنے کےلئے آنے والے جانور اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ مقامی گاؤں کے بچے کرکٹ کھیلنے میں مشغول تھے۔ سبھی سفر سے محظوظ ہو رہے تھے۔ میری آنکھیں موروں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ مور جو کبھی ان وادیوں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ جو اپنے حسن کا جلوہ بکھیرتے تھے۔ اور جھیل پر آنے والے سیاح موروں کی خوبصورتی بھی انجوائے کرتے تھے۔ جب مجھے کہیں مور نہ دیکھائی دیے، تو مقامی افراد سے دریافت کیا کہ جو وادیاں موروں کی وجہ سے مشہور تھیں۔ وہاں آج مور دور دور تک دیکھائی نہیں دیتے، تو معلوم ہوا کہ شکار، جنگلات کے کٹاؤ اور علاقے میں تیزی سے پھیلتی سیمنٹ فیکٹریوں کی آلودگی اور پانی کی کھپت کی وجہ سے نہ صرف مور ناپید ہو رہے ہیں، بلکہ دوسرے جنگلی جانور اور پرندے بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ مجھے یہ جان کر دکھ ہوا جبکہ اہل ثروت اور صاحبانِ اقتدارِ کی بے حسی پر افسوس بھی۔ ہم اپنے قدرتی مناظر کی حفاظت نہیں کرتے۔ جبکہ دوسری طرف سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے کی بھی بات کرتے ہیں۔ سویک جھیل کی جانب جانے والا راستہ خراب اور خطرناک ہے۔ جسے انویسٹمنٹ کے ذریعے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ پارکنگ ایریا بہت وسیع ہے، وہاں فوڈ پوائنٹ بنا کر سیاحوں کو تفریح اور مقامی افراد کو روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔ سویک جھیل ابھی بھی بہت سے سیاحوں کےلئے گمنام جگہ ہے۔ حالانکہ سویک جھیل جیسے پوائنٹ تو بین الاقوامی سیاحتی مقامات ہیں۔ چونکہ یہاں کی طرف جانے کےلئے بنیادی ڈھانچہ بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے بھی یہ جھیل بہت سے لوگوں کےلئے ابھی بھی گمنام ہے۔ جب تک ہم اپنا انفراسٹرکچر بہتر نہیں کرتے، سیاحت کو پروموٹ کرنے میں ہمیں مشکلات کا سامنا رہے گا۔
اب ہم پارکنگ ایریے تک پہنچ چکے تھے ۔
سورج ڈھل چکا تھا۔ آسمان پر سرخی پھیل چکی تھی۔ کھنڈوعہ کے پہاڑ بھی سرخی میں سرخ ہو چکے تھے۔ ہم اپنے واپسی کے راستے کی طرف گامزن ہو گئے۔ ہمیں کسی گیسٹ ہاؤس میں جا کر ٹھہرنا تھا۔ جہاں سے صبح ہم نے کٹاس راج کے مندر دیکھنے جانا تھا۔ ہمیں شیو کی آنکھ سے نکلا آنسو جس سے تالاب بن گیا تھا۔ ہمیں وہ تالاب دیکھنے جانا تھا۔ ہم وہاں سے نکل پڑے تھے۔ ہمیں دور جانا تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین کانجن کے کالمز
-
تھل کی یاد میں راکھ سے لکھا گیا کالم
پیر 13 دسمبر 2021
-
کٹاس راج کے مندر اور آنسوؤں کا تالاب
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سویک جھیل کے پانیوں پر اترتے پرندے اور کوہ نوردی کرتے قافلے
بدھ 14 جولائی 2021
-
سمندر کے پانیوں سے ابھرتا سورج
بدھ 19 مئی 2021
-
پاکستان کا المیہ
جمعہ 5 فروری 2021
-
انسانیت مر چکی ہے
ہفتہ 9 جنوری 2021
-
یہ سال بھی گزر گیا
منگل 29 دسمبر 2020
-
نفرت کی آگ
ہفتہ 12 دسمبر 2020
محمد ثقلین کانجن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.