
یہ سال بھی گزر گیا
منگل 29 دسمبر 2020

محمد ثقلین کانجن
(جاری ہے)
لیکن پھر پوری دنیا میں ایک آفت آئی اور اس نے عالم اقوام کو گھروں تک محدود کر دیا۔
شہر ویران، بازار بند اور کوچے خالی ہو گئے۔ لوگ ہاتھ تک ملانے سے محروم ہو گئے۔ اپنے اپنوں سے اجنبی ہو گئے۔ دنیا میں جہاں جسمانی نقصان ہوئے، وہاں مالی بحران بھی شدید ہوا۔ دنیا کی بڑی بڑی سٹاک ایکسچینج مارکیٹوں کو تالے لگ گئے۔ برآمدات درآمدات سب مفقود ہو کے رہ گئیں۔ لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی گھر اجڑ گئے۔ ابھی تک اس آفت کی شدت اور ہیبت جاری ہے۔ لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ ویکسین بنائی جا چکی ہے۔ جسے دنیا کے امیر ترین ممالک خریدنے میں سر فہرست ہیں۔ اور پھر بھی وہی طبقہ نقصان میں ہو گا، جو پیدائش سے بوڑھاپے کے سفر تک عمر بھر تیسری دنیا کے شہری رہتے ہیں۔ اور سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ اور پھر وہی عذاب ان کی اولادیں بھگتتے ہوئے عمر گزار دیتی ہیں۔ بہر حال یہ قادر مطلق کے فیصلے ہیں۔ اور وہ سب سے بہتر منصوبہ بندی کرنے والی ذات یے۔ کرونا وائرس کی وباء کے علاؤہ دنیا کو سب سے زیادہ خطرہ ماحولیاتی آلودگی اور تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز سے ہے۔ جن کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ اور یہ زمین انسانوں کےلئے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ جیسا کہ عالمی رہنماؤں کا اجلاس بلایا گیا، جس میں 2050ء تک کاربن اور دوسری زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے کےلئے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانے پر اتفاق ہوا۔ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے۔ جن کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ وزیراعظم اس حوالے سے آگہی بھی رکھتے ہیں اور وہ اس حوالے سے اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ لیکن محض درخت لگانے کے اعلان سے اور ماحول دشمن فیکٹریوں پر پابندی عائد کرنے کے اعلان سے اس وقت تک مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکتے، جب تک ان اقدامات کی کڑی نگرانی نہ کی جائے۔رواں سال معاشی حوالے سے بھی کوئی زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام بالکل بے بس نظر آیا۔ جبکہ دوسری طرف سوشلسٹ ملک چین نے نہ صرف کرونا کی وباء پر کنڑول حاصل کیا ہے، بلکہ اپنی معاشی ترقی کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے عوام دوست معاشی نظام یعنی سوشلزم کو دنیا میں رائج کرنا ضروری ہے۔ جبکہ اگر ہم عالمی سیاسی منظرنامہ پر نظر دوڑائیں، تو اس سال سب سے زیادہ اہم موضوع اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات رہا ہے۔ جن کو غیر عرب اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ناپسند کیا گیا ہے۔ کیونکہ دو ریاستی حل کے سوا اور فلسطین کے جائز حقوق کے حصول کے بنا، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا غیر اخلاقی اور اسلامی اقدار کے منافی ہے۔ پاکستان پر بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کےلئے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ لیکن پاکستان نے اس مؤقف کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ کیونکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی غیر قانونی ریاست کو مکمل مسترد کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ جب 1916ء میں بالفور اعلانیہ کے تحت مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔تو آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنا وفد برطانیہ بھیج کے اس اعلان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ آج بھی پاکستان کی عوام اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے دے گی، جب تک فلسطین کو اس کے جائز حقوق نہیں دیے جاتے۔
المختصر، اسرائیل عرب تعلقات، دوحہ معاہدہ جو فروری میں طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پایا، کرونا وائرس کی وباء، ماحولیاتی تبدیلیاں اور کساد بازاری اس سال کے اہم ترین موضوع رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں کرونا وائرس کی وباء کے علاؤہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد یعنی پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک، پی آئی اے کا طیارہ حادثہ اور اس سے جنم لینے والے حالات، آٹا، چینی اسکینڈل، گندم کا بحران، مہنگی اور نیب کی کاروائیاں اہم موضوع تھے۔ جبکہ دوسری طرف کتب بینی کے حوالے سے یہ سال کافی کا آمد رہا ہے۔ اس سال نہ صرف کتابوں کی مانگ میں اضافہ ہوا بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر سب سے زیادہ کتابیں اسی سال پڑھیں ہیں اور ایک ماہ میں چار سے پانچ کتابیں پڑھنے کی اوسط رہی ہے۔ کیونکہ گھروں میں مقید رہنے کی وجہ سے شامیں، راتیں اور سردی کی دھوپیں کتاب کے ساتھ بسر ہوئی ہیں۔ کتاب بہترین دوست ہے۔ کتاب کو زندگی کا معمول بنانے والے لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور خوش نصیب بھی۔ کیونکہ اچھی کتابیں بہت بڑی نعمت ہوتی ہیں۔ اور اس نعمت سے خوش بخت ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بہر حال، یہ سال دنیا کےلئے کئی اسباقِ چھوڑ کر جا رہا ہے۔ کرونا وائرس کی وباء کے باعث پیدا ہونے والے حالات نے مادہ پرستی کے نظریے کو داغ دار کر دیا ہے ۔ کرونا کی وباء نے مادیت پرستی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ زندگی محض مادہ کا نہیں بلکہ روح کا بھی مرکب ہے۔ اور جتنی غذا جسم یعنی مادہ کو ضرورت ہے۔ اتنی ہی انرجی روح کو بھی درکار ہوتی ہے۔ ایک سال اور زندگی سے کم ہو گیا ہے۔ یہ سال جیسا بھی تھا گزر گیا۔ اس میں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین کانجن کے کالمز
-
تھل کی یاد میں راکھ سے لکھا گیا کالم
پیر 13 دسمبر 2021
-
کٹاس راج کے مندر اور آنسوؤں کا تالاب
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سویک جھیل کے پانیوں پر اترتے پرندے اور کوہ نوردی کرتے قافلے
بدھ 14 جولائی 2021
-
سمندر کے پانیوں سے ابھرتا سورج
بدھ 19 مئی 2021
-
پاکستان کا المیہ
جمعہ 5 فروری 2021
-
انسانیت مر چکی ہے
ہفتہ 9 جنوری 2021
-
یہ سال بھی گزر گیا
منگل 29 دسمبر 2020
-
نفرت کی آگ
ہفتہ 12 دسمبر 2020
محمد ثقلین کانجن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.